حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
پڑتا تھا، اس شہر کے لوگ اہل مکہ سے جہاں یمن، شام اور حبشہ کی تجارت کی باتیں کرتے، کبھی بادشاہوں کے قصے اور لڑائیوں کی باتیں ہوتیں اور کبھی رِحْلَۃَ الشِّتَاء وَالصَّیْف (سردی و گرمی کے اسفارِ تجارت) زیرِ بحث ہوتے تو ننھے حضرت محمدﷺ کی دل ربا ادائوں اور برکات و خیرات کے ساتھ یہود کی پیش گوئیوں کا تذکرہ بھی ہوتا تھا۔ الغرض: عبدالمطلب کی زندگی کے آخری لمحات تک قرب و جوار کے بڑے شہروں میں نبی رحمتﷺ کی مکہ میں موجودگی کا ذکر عام ہو چکا تھا۔آخری نبی ﷺ تشریف لا چکے: عبدالمطلب اور ان کے خاندان کو نبی علیہ السلام کی برکت سے مزید پذیرائی ملتی جا رہی تھی، ان سے ملنے کے لیے جو شخص بھی آتا وہ آمنہ کے لال (ﷺ) کو دیکھتا تو آپﷺ کی جمال و جلال سے مرکب شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا، خاندانِ بنو ہاشم برکاتِ نبویہ کے مشاہدات سے مسلسل مستفید ہو رہے تھے، قحط کا سال آیا اور جزیرۃ العرب کی معیشت کو شدید دھچکا لگا، حضرت رُقیقہ بنت ابی صیفی (رسول اللہ ﷺ کے والدِ گرامی کی چچا زاد بہن) نے ایک خواب دیکھا، حضوراکرم، نورِ مجسم، رحمتِ عالمﷺ کے عہدِ طفلی کا یہ واقعہ خود ان ہی کی زبانی نقل کیا جاتا ہے، وہ فرماتی ہیں : قریش کے اوپر مسلسل قحط اور خشک سال گزر رہے تھے جنہوں نے لوگوں کی صحت کوبہت متاثر کردیا تھا، ہڈیوں کو نرم اور کمزور کر دیا تھا۔ (اس صورتِ حال سے انسان، چرند، پرند الغرض حجاز کی ہر روح متاثر ہوئی تھی) میں نے خواب دیکھا، کہنے والا مجھے سنا کر کہہ رہا تھا: اے قریش کی جماعت! بے شک وہ نبی (ﷺ)مبعوث ہو چکا ہے جو تم لوگوں میں سے ہے اور یہی اس کے ظہور کا وقت ہے۔ وہ خیر اور سرسبزی کو لے کر آیا ہے۔ خبردار! تم لوگ دیکھو اپنے اندر سے ایسے آدمی کو جو سب سے لمبا ہے، بڑا ہے، انڈے کی سفیدی جیسا اس کا رنگ ہے، اُونچی ناک والا ہے۔ اس کو وہ بڑائی حاصل ہے جو صرف اس پر بند ہے اور اس کا طور طریقہ ایسا ہے جس کی طرف راستہ بنایا جاتا ہے۔ (لوگ اس کی اتباع کرتے ہیں ) غور سے سنو! اسی کو اور اس کے بیٹے (پوتے) کو منتخب کیا جائے اور چاہیے کہ ہر قبیلے کی ہر شاخ جمع ہو کر اس کے پاس آئے اور سب لوگ خوشبو لگا کر آئیں ، حجرِ اسود کا استیلام کریں اور سات مرتبہ کعبہ کا طواف کریں ۔ اس کے بعد لوگ جبلِ ابوقُبیس پر چڑھ جائیں اور و ہی خاص شخص بارش کی دعا کرے اور باقی قوم آمین کہے۔ آگاہ رہو! پھر تم لوگوں پر بارش برسائی جائے گی، جس قدر چاہو گے اور جب تک جیو گے۔ حضرت رقیقہ صیفی کہتی ہیں کہ میں نے صبح کی، اللہ جانتا ہے کہ میں دل گرفتہ تھی، ڈر رہی تھی، خوف سے میری جلد سکڑ رہی تھی، میری عقل مائوف ہو رہی تھی۔ میں نے اپنا خواب بیان کیا، چنانچہ وہ مکے کی ہر گھاٹی میں پھیل گیا۔ قسم ہے