حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
وَتُعِیْنُ عَلیٰ نَوَائبِ الْحَقّ ۔(۱) اس سے سبق ملا کہ جو لوگ والدین کے سہاروں ، دنیا کی محبتوں اور ہر ماحول میں بے پناہ چاہتوں سے محروم ہوتے ہیں اور اپنی زندگی خود بناتے ہیں ۔ وہ کبھی بھی اور کہیں بھی دھوکہ نہیں کھاتے۔ پیچھے نہیں آتے، آگے ہی بڑھتے جاتے ہیں ۔والدین کی جدائی اور نظامِ تربیت جس دن آپﷺ کی والدہ وفات پا گئیں ۔ اس دن حضرت محمدﷺ کی دنیا بظاہر اندھیر ہو گئی، نہ باپ کا سایہ نہ ماں کی شفقت، اب سارے سہارے ٹوٹتے نظر آئے، لیکن ایک آسرا جو حقیقی اُمیدوں کا مرکز ہے وہی باقی ہے، اس کی طرف پیارے محمدﷺ کی توجہ مبذول کروانی ہے، آج تو امی رُخصت ہوئی اس سے پہلے جب ان کے ابوحضرت عبد اللہ بن عبدالمطلب کو سپردِ خاک کیا گیا، اُس دن آسمان کی نورانی محفل میں فرشتوں نے عرض کی: اے ہمارے پروردگار! آپ کے نبیﷺ تو یتیم ہو گئے۔ ان کی حفاظت و تربیت کون کرے گا؟ اللہ نے فرمایا: میں اس کا حفاظت کرنے والا اور میں ہی اس کا مددگار ہوں ، میں ہی اس کا ولی، رازق، حمایت کرنے والا اور میں ہی اس کے لیے کافی ہوں ۔ تم اس پر درود پڑھو اور تم اس کے لیے (مجھ سے) برکت کی دعائیں مانگو! اب جبکہ ماں کی ممتا سے بھی آپﷺ کو بظاہر محروم کیا جا رہا تھا تو اس وقت اگر فرشتوں نے سوال کیا ہوگا تو جواب کا مفہوم بھی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے جو اللہ نے اپنے کلام میں دیا: أَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ‘ (۳) ’’کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟‘‘ ------------------------ (۱) صحیح البخاری: حدیث نمبر ۳ (۲) تاریخ الخمیس: ۱/۱۸۷، الخصائص الکبریٰ ۱/۸۱، شرف المصطفیٰ: ۱/۳۶۲، مستعذب الاخبار، ۱/۹۲ (۳) الزّمر: ۴۶۲