حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
حضورﷺ کو نبوت ملی، تیرہ سال بعد مدینہ کی ہجرت کی،زمین و آسماں میں آپﷺ کا چرچاہوچکا تھا۔ اس وقت تک آپﷺ کی رضاعی بہن حضرت شیماء رضی اللہ عنہا کہاں تھیں ، ان کی شادی کس قبیلے میں ہوئی اور وہ کہاں رہیں ؟ اللہ جانتا ہے۔ البتہ فتح الباری میں یہ لکھا ہے کہ ۸ھ، ماہِ شوال میں جب اہلِ اسلام بنو ہوازن سے نبرد آزما ہوئے اور اللہ کی کھلی مدد آئی،اس قبیلے کے چھ ہزار قیدی، چالیس ہزار بکریاں ، چوبیس ہزار اُونٹ اور چار ہزار اوقیہ چاندی مالِ غنیمت میں آئیں ، تو ان میں حضرت شیماء رضی اللہ عنہا بھی قید ہو کر آئیں ۔ گرفتار ہونے والوں میں بنو سعد (خاندانِ حلیمہ رضی اللہ عنہا ) کے مرد اور عورتیں بھی تھیں ۔ جعرانہ کے مقام پر سب اسیروں کو رکھا گیا تھا۔ ان چھ ہزار قیدیوں کوامام الانبیاءﷺ نے نہ صرف معاف کیا، آزاد بھی فرما دیا،اس دن بنو ہوازن کے خطیب نےحضورﷺ سے درخواست کی: ’’اے اللہ کے رسولﷺ! ان قیدیوں میں آپﷺ کی (رضاعی) پھوپھیاں ، خالائیں اور گود کھلانے والیاں بھی ہیں ۔ یارسول اللہ ﷺ! اگر اس قسم کی درخواست ہم کسی (دنیاوی) بادشاہ کے سامنے کرتے تو وہ مہربان ہو جاتے، جبکہ آپﷺ سے بہتر تو کوئی ایسا ہے نہیں ، جس کی کسی نے کفالت کی ہو۔‘‘ (سیّدِ دو عالمﷺ سب سے زیادہ مہربان اور رشتوں ، ناتوں پہ رقیق القلب تھے۔)اور آج تو معافی کی درخواست میں آپﷺ کی رضائی مائوں اور بہنوں کا حوالہ بھی دے دیا گیا تھا، اس لیے( آپﷺ کا سحابِ کرم اس دن ایسے برسا کہ آپﷺ نے صحابہ رحمہم اللہ کوانسانیت نوازی اور عفو و کرم کا خطبہ دیا جسے سن کر ) تمام صحابہ رحمہم اللہ اپنے قبضے کے قیدی اور اموال واپس کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور چھ ہزار جنگی اسیروں کو رہا کر دیا، قیمتی سامان اور جانور بھی واپس کر دیے۔(۱)میں آپﷺ کی بہن ہوں : دنیا کا کوئی بادشاہ اتنی بڑی فتح کے بعد یوں لوگوں کو آزاد نہ کرتا، ایسی مثال -------------------------------------- (۱) تاریخ دمشق لابن عساکر: ۵۸/ ۲۷۱، تاریخ الخمیس: ۲/۱۱۲، الوفاء ۱/۴۷۹، فتح الباری: ۸/۳۴