حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
عبدالمطلب و عبد اللہ یثرب (مدینہ) کی طرف: ان دو کاموں کے بعد ان کوحضرت عبد اللہ کے نکاح کی فکر ہوئی۔ اب ان کا بیٹا عبد اللہ جوان ہو چلا تھا، اس دوران حضرت عبدالمطلب کی ملاقات سفرِ یمن میں ایک ایسے شخص سے ہوئی جو کتبِ سماویہ کا جید عالم تھا، اس نے کہا: تم کون ہو؟ عبدالمطلب: قریش۔ کہا: کون سے قریش؟ عبدالمطلب: ’’بنو ہاشم‘‘۔ کہنے لگا: تم اپنے نتھنے دکھا سکتے ہو؟ جواب دیا: کیوں نہیں ۔ عالم نے دیکھ کر کہا: تم اگر یثرب کے قبیلہ بنو زھرہ کے اندر شادی کر لو تو تمہیں بادشاہت اور نبوت دونوں مل جائیں گی۔‘‘ (اس خاندان سے حضرت عبدالمطلب کے اچھے تعلقات تھے) جب وہ مکہ میں آئے تو وہ اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ اور اپنی دوسری شادی اسی خاندان میں کرنے کا ارادہ کر چکے تھے۔(۱)چنانچہ انہوں نے سوچ بچار کے بعد اپنے سب سے لاڈلے بیٹے(حضرت عبد اللہ ) کو یثرب (مدینہ) میں لے جانے اور نکاح کا فیصلہ کر لیا۔والدِ مصطفیﷺ، نورِ نبوت، پاک دامنی اور اسلامی حیا: حضورﷺ کے دادا ان کے والد عبد اللہ کو نکاح کے لیے مکہ سے مدینہ لے کر چلے۔ حضرت محمدﷺ کے والد (عبد اللہ ) کے چہرے پہ نورِ نبوّت ایسے چمکتا تھا جس طرح روشن ستارہ ضو فشاں ہوتا ہے، وہ انتہائی حسین، شریف النفس، عفیف و پاک دامن تھے۔ وہ صرف قریش کے نہیں عالمِِ عرب کے مہ جبیں تھے۔(۲) بھلا جس چہرے پہ حضرت محمدﷺ کے نور کی جھلک ہو اس کا کوئی ہم پلہ ہو تو کیسے؟ جناب عبدالمطلب نے یثرب (مدینہ) کی نیک سیرت لڑکی حضرت آمنہ سے اپنے بیٹے کی شادی کا ارادہ کیا ہوا تھا۔ مکہ کی دیگر بہت سی لڑکیوں کے ساتھ ایک عفیفہ ------------------- (۱) الخصائص الکبریٰ: ۱/۶۸، سبل الہدیٰ: ۳/۲۵ السیرۃ الحلبیہ:۱/۶۵ (۲) السیرۃ الحلبیہ: ۲/۶۷