حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
بلانے والے‘‘ تھے، یہی سب نبیوں اور رسولوں کا منفرد صفاتی نام ہے اسی لیے بچپن ہی سے ان کی زبان، لہجہ، اسلوبِ بیان اور طرزِ گفتار دعوتی مشن کے رنگ میں ڈھلی ہوتی ہے۔ وہ اپنی ضرورت سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں ، دعوت کی اپنی زبان ہوتی ہے، جسے حضرت ثعلبؒ نے ’’لُغَۃ النَّبِی‘‘ سے تعبیر کیا اور بہت خوب کیا۔(۱) ایک دن بنوفہد کے لوگوں نے دورانِ گفتگو حضورﷺ سے سوال کیا۔ بنو فہد: یارسول اللہ (ﷺ)! ہم اور آپﷺ ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں ، ایک ہی مقام پہ ہمارا اور آپﷺ کا زمانہ تربیت (رضاعت و طفولیت) گزرا، پھر یہ کیا بات ہے کہ آپﷺ ایسی (فصیح و بلیغ) عربی بولتے ہیں کہ جس (کی باریکیوں ، لطیف استعاروں اور گہری تمثیلوں ) تک ہماری رسائی نہیں ہے؟ نبی رحمتﷺ: اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اَدَّبَنِیْ فَاَحْسَنَ اَدَبِیْ وَنَشَأتُ فِیْ بَنِیْ سَعْد بن بَکْرٍ(۲) میری لسانی تربیت خود اللہ نے فرمائی اور بہت خوب فرمائی (کہ میرا ذوقِ ادب پروان چڑھا، اگرچہ یہ نعمت مجھے اس نے خاص فضل و احسان سے عنایت فرمائی لیکن عادت کے مطابق اس کا ایک ظاہری سبب بھی تھا، وہ یہ کہ) میں نے بنوسعد میں نشوونما پائی۔دعوت کا طرزِ بیان: سیّدِ دو عالمﷺ نے اُمت کو سبق دیا کہ دعوت کی اپنی زبان ہوتی ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ ایک داعی کے اخلاق و کردار اور اعمالِ دینیہ و دنیویہ کی پوری نگرانی فرماتے ہیں ۔ اسی طرح اس کے طرز گفتگو، تراکیبِ الفاظ اور اصطلاحی جملوں کی تزیین و آرائش --------------------------- (۱) المواھِبُ اللَّدُنْیۃ: ۲/۲۷ (۲) المَوَاھِب اللدنیہ ۲/۲۲، الوفا: ۲/۹۹ شبھاتٌ حَول عصمۃ النبیﷺ: ۱/۷۸