حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی(۱) ’’کیا ہم نے آپﷺ کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانہ دیا؟‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُمتِ محمدیہﷺ میں جتنے بھی یتیم ہوں گے۔ وہ اگر حضورﷺ کی طرح اپنا لڑکپن گزاریں تو مدد الٰہی کا وعدہ ان کے لیے بھی پورا کیا جائے گا۔ حضور نبی اکرمﷺ ابھی پانچ سال کے تھے کہ اپنی رضاعی ماں کو فرمایا: امی! میں بھی بکریاں چرانے کے لیے وہاں جائوں گا جہاں میرے دوسرے بھائی جاتے ہیں ۔ (۲) ذرا اور عمر پائی تو اہل مکہ کی اور اپنی پکریاں پا لیں ۔(۳) پھر تجارت کے لیے اپنے چچا کے ساتھ جانا پسند کیا۔(۴) یہ سب کچھ خود انحصاری، محنت پہ یقین اور معاشی و معاشرتی ترقی کا زینہ نہیں تو اور کیا ہے؟یتیمی سے رہبری تک: نبی رحمتﷺ کی حیاتِ طیبہ قابلِ ذکر، لائقِ تقلید اور قدرتِ الٰہی کے مظاہر و مناظرِ حسنہ سے معمور ہے۔ ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے تمام تر پیش آمدہ مسائل کا حل سیرتِ رسولﷺ کے احوال کی روشنی میں تلاش کرے۔ آپﷺ کی یتیمی، مالی قلت، غموم و ہموم کی کثرت، جس راہ پر آپﷺ چلنا چاہتے تھے اس کے لیے رکاوٹیں ۔ ان تمام امور کے باوجود (ترقی) کی وہ منازل طے کرنا، جو بیک وقت لاکھوں انسانوں کے لیے مشعلِ راہ ہوں ، سینکڑوں مسلم اور غیرمسلم ان کی کامرانیوں پر بحث کر رہے ہوں ، کیا یہ گوشۂ سیرت اپنے اندر راہنمائی کی صلاحیت نہیں رکھتا؟ دُنیائے اسلام اور دنیائے کفر و الحاد نے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حضورﷺ کا معاشی، تمدنی اور معاشرتی مجبوریوں اور زمانے کی ناہمواریوں کے باوجود آسمان کو چھو لینے والی بلندیوں کو حاصل کر لینا یہ سبق دیتا ہے کہ زندگیاں مال، ماحول، حکومت اور ------------------------ (۱) سورۃ الضحیٰ:۶ (۲)(شرح الشفاء: ۱/۴۵) (۳)سبل الہدیٰ: ۲/۱۵۶ (۴) ابنِ ہشام: ۱/۱۸۲