حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
بھری ہوئی موجیں مار رہی تھی(کسی کو آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ حالانکہ بڑے بڑے شہسوارانِ بطحا ساتھ تھے، مگر سب نے سواریوں کی لگامیں کھینچیں اور ان کو وادی کے کنارے روک رکھا تھا، یہ دیکھ کر آنحضرتﷺ نے فرمایا: قافلے والو! میرے پیچھے پیچھے چلے آئو! اور حضورﷺ نے اپنی سواری پانی میں اُتار دی، آپﷺ کے ساتھ سب نے سواریوں کو چلانا شروع کر دیا، حتیٰ کہ سب کنارے آ لگے (اور کسی کا کوئی نقصان بھی نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ خاص سے پانی کو خشک کر دیا ؎، مکہ میں مذکورہ واقعہ اور اس کے ساتھ) دیگر واقعات بیان ہوئے تو ہر سننے والے کی زبان پہ جاری ہوا: اِنَّ لِھٰذَا الْغُلَام شَأنًا (۱) ’’اس لڑکے کی تو شان ہی نرالی ہے۔‘‘یوں ہمیں چھوڑ کر نہ جایا کرو: ابھی آپﷺ کے لڑکپن کا زمانہ جوانی کو چھو رہا تھا۔( مؤرخین نے پندرہ یا چودہ سال عمر لکھی ہے)۔ ان دنوں میں جنگ کا ایک واقعہ ہوا، یہ معرکہ قریش اور قبیلہ قیس کے درمیان پیش آیا، اول قریش مغلوب ہوئے پھر غالب آئے، اسے’’ حربِ فجار‘‘ کا نام دیا گیا۔ بالآخر صلح پر جنگ کا خاتمہ ہوا۔ حضور نبی اکرمﷺ بھی اپنے چچائوں کے ساتھ میدان میں تشریف لے گئے۔ ان میں سے کون حق پر تھا اور کون ناحق برسر پیکار تھا؟ تاریخ نے اس پر جرح نہیں کی۔ البتہ حرمِ محترم (کعبۃُ اللہ ) جس شہر میں تھا اس کا دفاع ضروری تھا۔ شاید اسی نسبت سے آپﷺ کے قدوم ِمیمنت لزوم اپنے اعزہ کے ساتھ معرکۂ کارزار کی طرف بڑھنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اِدھر قیس (بنو ہوازن) آ گئے۔ دوسری طرف قریش پہنچے، حضرت محمدﷺ بھی اپنے چچائوں کے ساتھ اتنا کام ضرور کر رہے تھے کہ ان کو تیر پکڑا رہے تھے۔ یہ جنگ چار دنوں تک جاری رہی۔ ان چاروں ایام میں جتنے وقت تک حضرت محمد ------------------------------ (۱) السیرۃ الحلبیہ: ۱/۱۷۰، الوفا: ۱/۵۳ سبل الہدیٰ: ۲/۱۳۸