حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
عبدالمطلب کو خبردار کر دیا تھا کہ آپ کے بے مثال پوتے کو یہودی تکلیف پہنچا سکتے ہیں ۔(۱) چنانچہ دو اونٹوں پر تین افراد کا یہ قافلہ مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوا تو جہاں اہلِ مدینہ افسردہ تھے وہاں ننھے محمدﷺ کی جدائی پر خاکِ یثرب بھی آنسو بہا رہی تھی۔(۲) تقدیر کہہ رہی تھی: اے ارضِ مقدس! ابھی ُتو اس کے مبارک جسم کی خوشبو کو سینے سے لگا کے سو جا، پورے اڑتالیس سال تجھے انتظار کی کلفت میں مزید بسر کرنا ہوں گے اور پھر ایک دن یہاں حضرت محمدﷺ آئیں گے، ایک تاریخ رقم کریں گے، پھر تو ہمیشہ کے لیے انہیں اپنے دل میں بسا لینا۔ پھر وہ تجھے چھوڑ کر کہیں نہ جائیں گے۔مکہ واپسی اور والدہ کی وفات پیارے محمدﷺ کی سواری جب تک آنکھوں سے اوجھل نہ ہوگئی اس وقت تک اہل مدینہ’’ ثنیات الوداع‘‘ پر کھڑے دیکھتے رہے اور ننھے محمدﷺ نے کئی بار مدینہ پر محبت بھری الوداعی نظر ڈالی۔ بظاہر یہ سفر مدینہ سے مکہ کی طرف تھا، ننھے محمدﷺ ننہال والوں کے پیار کے بعد ددھیال کی ناز برداریوں کی طرف جا رہے تھے لیکن دونوں شہروں کے درمیان ایک منزل ’’اَبُواء‘‘ میں قیامتِ صغریٰ کا ایک منظر محمد کریمﷺ کے لیے منتظر تھا۔ وہاں پہنچے اور ذرا ٹھہرے کہ سستا لیں ، معلوم نہ تھا کہ ایک مسافر یہاں ابدی نیند سو جائے گا۔ حضرت آمنہ کی طبیعت اچانک خراب ہوئی، یہ اُن کا آخری وقت تھا، حالتِ سفر میں حضرت اُمّ ِایمن رضی اللہ عنہا اور نو عمرحضرت محمدﷺ کھلے آسمان کے نیچے یہ کیا دیکھ رہے تھے؟ حضرت محمدﷺ کی دلی کیفیت کیا تھی؟ کسی کے ساتھ (خدا نہ کرے) یہ سب کچھ ہو تو شاید کچھ اندازہ ہو سکے، جو بچہ ابھی اپنے مرحوم باپ کی قبر دیکھ کر آ رہا تھا اب اس کے سامنے ماں کی قبر بھی بنائی جا رہی تھی۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ وطن سے پہلے ارمانوں کے مدفن سے گزریں گے۔ -------------------------- (۱) سبل الہدی والرشاد ۱/۱۲۷ (۲) الموسوعۃ فی صحیح السیرۃ: ۱/۱۰۱