حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
ریشم روم سے آتا ہے۔ شام سے ہتھیار آتے ہیں ۔(۱) تو معلوم ہو گیا کہ قوم کی دلچسپی کا جو جائز سامان ہے، اس میں ان کے ساتھ مشغولیت اسلام کا خوبصورت چہرہ دکھانے کے لیے ضروری ہے، مستقبل میں ان کو عبادت کی طرف بلانا ہے تو ان کے ساتھ لین دین ضروری ہے۔ یہی درس آپﷺ نے اعلانِ نبوت کے بعد جاری رکھا جس کا عملی نمونہ نو عمری اور عہدِ شباب میں پیش کر آئے تھے، تو آپﷺ کے ماننے والوں کا پوری دنیا میں پھیلنا آسان ہو گیا اور تبلیغِ اسلام اپنا رستہ خود بناتی رہی۔بیک وقت بیتُ اللہ اور’’ دارُ النّدوہ‘‘ میں عبدالمطلب اور ابوطالب سردارانِ مکہ تھے۔ اپنے اپنے اوقات میں مکہ کے اہم امور ان ہی کے سپرد تھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ حضورﷺ کے چچا آبِ زم زم کے امور کے منتظم اعلیٰ تھے۔ زبیر بن عبدالمطلب چچا تھے اور ارضِ مکہ کے شعراء، ادباء، رئوسا اور تجار میں باعزت مقام رکھتے تھے۔ یہ تمام حضرات مشاورت، قومی و حربی امور کے لیے اپنی قوم کے اہل حل و عقد اور عقلاء کو جمع کرتے تو حضورﷺ کو ساتھ لے جانا نہ بھولتے۔ اس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ جب ’’دارالندوہ‘‘ میں نکاح کے لیے دولہا اور دولہن والے جمع ہوتے، باہمی تنازعات کے فیصلے ہوتے تھے، اس وسیع و عریض مکان میں بیت اللہ کے نگران اپنے ضروری امور (موسم حج کی تیاری، خانۂ خدا کی صفائی، اس میں روشنی، غلافِ کعبہ کی تیاری جیسے اہم معاملات طے ہوتے تو حضرت نبی محترم علیہ السلام ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ ’’دارالنّدوہ‘‘ کا دروازہ بیت اللہ کی طرف کھلتا تھا اس میں سے لوگ نکلتے تو ------------------- (۱) ’’اسلام کے معاشی نظریے‘‘ حیدر آباد دکن حصہ اوّل، مطبوعہ سن ۱۳۶۹ھ، ص ۴۸، ۴۹