حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
اس اُمت کے نبی علیہ السلام ہیں (حتیٰ کہ حبشہ کا بادشاہ) سیف بن یزن بھی یہی سمجھتا ہے کہ یہ اُمت کے نبی علیہ السلام ہیں ۔ ان وجوہات کی بنا پر (اے اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا !) میں متفکر رہتا ہوں کہ کہیں اس کو یہودی تکلیف نہ دیں ، ان کی عادت رہی ہے کہ وہ نبیوں کو قتل کرتے ہیں ، جبکہ مجھے ان میں سے بعض لوگوں نے خبردار بھی کیا ہے کہ ہم بچے کے بارے میں محتاط رہیں ۔(۱)کبھی دادا کے دوش پر کبھی آغوش میں : عبدالمطلب نے اپنے لاڈلے پوتے کو ابتدائی چند ایام میں دیکھا، پھر دو سال کے لیے بنو سعد میں بھیج دیا، ممکن ہے اس دوران وہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کے دولت کدے پہ بھی آئے ہوں ، ان کی بے پایاں محبت کہتی ہے کہ ایام رضاعت میں بھی بنوسعد آ کر انہوں نے اپنی آنکھوں کو دیدارِ مصطفیﷺ سے ضرور ٹھنڈا کیا ہوگا۔ وہ سینکڑوں میل کا سفر کر لیتے تھے جبکہ ان کے قلب و جگر کے مکین(حضرت محمدﷺ) تو صرف ساٹھ کلومیٹر دور بنو سعد میں تھے۔ ان سے کیسے صبر ہوا ہوگا، وہ خود آئے یا انہوں نے کسی کو حضورﷺ کی خیر خبر کے لیے ضرور بھیجا ہوگا۔ وہ بڑے رقیق القلب اور ارجمند طبیعت کے مالک تھے، انہوں نے جب حضورﷺ کے والد گرامی (عبد اللہ ) کے متعلق سنا کہ وہ شام سے واپس آتے ہوئے بیمار ہو گئے اور مدینے میں ٹھہر گئے ہیں ، تو ان کی برداشت سے معاملہ باہر ہو گیا، فوراً حضورﷺ کے ایک چچا کو بھیجا کہ وہ عبد اللہ کو لے کر آئیں اور رو بہ صحت ہونے تک تیمارداری کریں ۔(۲) اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ انہیں عبد اللہ سے زیادہ ان کی یادگار (سیدنا محمدﷺ) سے پیار تھا، انہوں نے اس دوران (ایام رضاعت میں ضرور) ملاقات کی ہوگی۔ بہرحال یہ تو اللہ جانیں اور ان کی بے حساب حکمتیں کہ حضورﷺ کے ایام طفولیت اور زمانۂ جواں عمری کے لمحات کی سنہری تاریخ کی حفاظت کا اس طرح باضابطہ انتظام کیوں نہ کیا ----------------------------------- (۱) فقہ السیرۃ: ۱/۸۲، سبل الہدیٰ: ۲/۱۳۰ المختصر الکبیر: ۱/۲۸، الاکتفاء ۱/۱۱۵ (۲) الطبقات الکبریٰ: ۲/۷۹