حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
اس آیت کو جب خودحضرت محمدعربی ﷺ نے پڑھا( تو اس کی تفسیر میں ) ارشاد فرمایا: سیدنا آدم علیہ السلام سے میرے والد تک میرے سلسلۂ نسب میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے، جس نے کسی عورت سے بغیر نکاح کے تعلق رکھا ہو۔ میں تم سب میں پاکیزہ نسب ہوں ۔ امام سبکی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سیدنا آدم علیہ السلام سے آپﷺ تک جتنی بھی خواتین آپﷺ کے نسب میں حضرت آمنہ تک آتی ہیں ، ان تمام کے نکاح ان ہی شرائط(گواہوں ،ایجاب وقبول اورمہر) پر ہوئے جن پر آج کل اسلام میں ہو رہے ہیں ۔علماء انساب حضورﷺکے قدموں میں اس فن کے ماہرین کا دائرۂ اسلام میں داخل ہو جانا اس امر کی دلیل ہے کہ وہ حضرات آپﷺ کو اعلیٰ نسب سمجھتے تھے، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ مسلمان نہ ہوتے۔ سیرت نگار ڈاکٹر محمد ثانی مدظلّہ لکھتے ہیں : ماہرینِ انساب کے چند نام یہ ہیں : صدرِ اسلام میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب علم الانساب کی قدرو قیمت کے شناسا تھے جس کی اس زمانے کے معاشرے میں بڑی اہمیت تھی، انہوں نے قریش کے علمائے انساب، مثلاً: حضرت جبیر رضی اللہ عنہ بن مطعم، حضرت عقیل رضی اللہ عنہ بن ابی طالب حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ بن نوفل کو اپنے لیے شجرہ ٔ نسب بنانے کا حکم دیا تھا۔ مخرمہ رضی اللہ عنہ بن نوفل اس جماعت کے بھی رکن تھے جو حرمِ مکی کی حدود کے نشانات لگانے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ ان اکابر رحمہم اللہ کے پوتے اور پڑپوتے بھی علماء انساب ہونے کے علاوہ تاریخِ عرب کے بڑے واقف کار تھے۔ کتبِ طبقات اور متعدد مآخذ سے پتا چلتا ہے کہ مذکورہ بالا تینوں قریشی اکابر رحمہم اللہ انسابِ قبائل اور ان کے ناموں کے علاوہ اشعار ُالعرب اور اخبار ُالعرب کے بھی عالم تھے۔حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی آدھی عمر زمانہ جاہلیت میں گزاری تھی، انہوں نے حضرت جبیر رضی اللہ عنہ بن مطعم کو بادشاہ نعمان بن المنذر کی تلوار جو کپڑوں سمیت مال غنیمت میں آئی تھی، عطا کی تاکہ وہ اس بادشاہ کے حالات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوبتائیں ۔ حضرت نافع رضی اللہ عنہ بن جبیر کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جبیر اور ان کے بیٹے نقد تاریخ کا بھی ذوق رکھتے تھے۔