حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
گیاہ علاقوں ، نرم اور کہیں سنگلاخ زمینوں پہ رکھا گیا۔ آپﷺ نے اُونٹوں کا سفر کیا، ان کا دودھ پیا، کھلے ماحول میں کبھی سورج کو انگڑائیاں لیتے دیکھا اور کبھی اسے فلک بوس پہاڑوں کے پیچھے چھپتے دیکھا اور دن کے آنے اور رات کے جانے کے مناظر سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ یہ سب چیزیں وہ ہیں جن کے بیان کے لیے قرآن اُترنے والا تھا وَمِنْ اٰیاتِہٖ… ومِنْ اٰیاتِہٖ کہ یہ بھی اللہ کی نشانی اور یہ بھی اللہ کی نشانی ہے۔ نزولِ قرآن سے پہلے، تلاوتِ آیات سے پہلے اور تعلیمِ کتاب سے بھی پہلے ان آثارِ برہانیہ کا مطالعہ کرایا گیا اور چالیس سال کرایا گیا۔آپﷺ کا غائب ہونا شجرۂ یمنٰی کے پاس حضورﷺ کا پایا جانا، فرشتوں کے ذریعے آپﷺ کی حفاظت وصیانت اور ہاتفِ غیبی کی وہ آواز جو پورے مکے میں سنائی دی، یہ سب اللہ کی وہ نشانیاں تھیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنی اور اپنے حبیبﷺ کی معرفت کو عام فرما رہے تھے اور عقل مند لوگ سمجھ بھی رہے تھے۔ چنانچہ ایسے حوادث کے بعدحضرت عبدالمطلب یہ جملہ ضرور فرمادیاکرتے کہ: اس بچے کی بڑی شان ہوگی۔(۱) گم ہونے کا یہ حادثہ اور اس قسم کے دیگر حوادث حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا سے سنے، تو فرمایا: میرے بچے کی یہ باتیں اس کی( من جانب اللہ ) برتری کی علامات ہیں کوئی جن وغیرہ نہیں ہیں جو انہیں کہیں لے جاتے ہیں ۔(۲)اس بچے نے شرک کو ہلاک کر دیا: اسی واقعہ میں ہے کہ جب حضورﷺ گم ہوئے (اور لوگ تلاش کے لیے گئے ہوئے تھے) اس اثنا (رات کی تاریکی میں ) حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا (دعا کے لیے بیت اللہ کے اندر) ہبل (بت کے قریب تک) چلی گئیں اور یہاں بارگاہ الٰہی میں حضرت محمدﷺ کے گم ہو جانے کا درد بیان کیا اور جلدی واپسی کی دعائیں کیں ۔ ------------------------- (۱) السیرۃ الحلبیۃ: ۱/۱۵۰ (۲) شرح الزرقانی: ۱/۲۸۱، الروض الانف: ۲/۹۲، شفا: ۱/۱۷۲، سیرۃ ابن اسحاق ۱/۲۵، السیرۃ الحلبیہ: ۱/۱۳۹