حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
چالیسواں سال آ گیا، جس کا انتظار صدیوں سے ہو رہا تھا۔ نبیوں کی زبانوں پر جس کے نغمے اور ترانے جاری تھے وہ وقت آ پہنچا۔ ربیع الاوّل کے مہینے میں چالیس سال قبل جو ستارہ طلوع ہوا وہ مہِ کامل اور آفتاب دو جہاں بن چکا اور ایک دن لوگوں نے دیکھا کہ فجر ہو چکی۔ ارض و سماء کے ذرّے ذرّے سے آواز آئی: یہ وہ صبح ہے جس کی کوئی شام نہیں ، یہ وہ آفتاب ہے جس کو غروب ہونے کا غم نہیں ہے۔ یہ ۱۳ قبل ہجرت ۶۱۰ عیسوی ماہِ فروری کا ایک دن تھا۔ جس روز سب سے پہلی وحی (اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ٭ سورۃ العلق)نازل ہوئی۔باب:۱ حضورﷺ کا سراپا، بزم آرائی و شرافتِ نسبی (حسب و نسب اور مَولِد مبارک کا تذکرہ) حضرت محمدﷺ کی پیدائش تاریخِ انسانیت کا سب سے خوبصورت واقعہ تھا۔ آپﷺ کی آمد سے پہلے اللہ نے اس بزم کو کس طرح سجایا؟ آپﷺ کے حسنِ صورت و کمالِ سیرت کے ساتھ نسب کی پاکیزگی و شرافتِ انسانی کے کس درجہ و مقام کا تعارف دنیا کو کرایا گیا؟ اور کن ارضی و سماوی حالات و واقعات کا مشاہدہ وادیٔ مکہ میں کیا گیا؟ ان سوالوں کے دل نشیں جوابات کے لیے اس باب کے چند اوراق کا مطالعہ ایمان افزاء ہوگا۔بچپن میں اللہ کے محبوبﷺ کا سراپا: پاکیزگیٔ صورت اور حسن و جمال جو اُمّ معبد رضی اللہ عنہا نے دیکھا اور بیان کیا یا حضرت ہند رضی اللہ عنہ بن ابی ھالہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کی خواہش پر حضورﷺ کا جو حلیہ بیان کیا تھا، اس کے بنیادی و فطری خدوخال تو وہی تھے جو ابتدائے عمر میں دیکھے گئے۔ اعضاء کے تناسب میں جو تبدیلی عمر کے ساتھ ساتھ آتی ہے، بس وہی دیکھی جا سکی یعنی بچپن کے متناسب الاعضاء حضرت محمدﷺ بن عبد اللہ جب محمدٌ رَّسول اللہ ﷺ کی شان سے معروف ہوئے تو کسی بھی عضو میں ایسی تبدیلی نہ آئی جو حسن کے باب میں نقص شمار ہوتی۔ آنکھوں کی چمک، ان میں سرخ ڈورے اور فطری سرمہ ہمیشہ پرکشش رہا اور ان کی پتلیاں بڑی اور روشن ہی رہیں ۔ سر پہ بالوں کی بہار، ابرو کی باریکی و پیوستگی میں وہی تازگی دیکھی جاتی تھی جو حضراتِ صحابہ رحمہم اللہ نے ان کی جوانی میں دیکھی اور آج کتب ِشمائل کی زینت ہے۔