حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
بھائی کی شاداب و بے داغ جوانی کو دیکھیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ: اللہ ! مجھے وہ وقت بھی دکھا کہ میرے اس بھائی کی قیادت کو پوری قومتسلیم کرتیہے۔ وہ دعا کرتی تھیں کہ: اسے ایسی جوانی، سرداری اور محفوظ و مقبول حکمرانی ملے کہ حاسدین کے سر جھک جائیں ، وہ اپنے حسد کی آگ میں خود ہی جلا کریں ، پیارے محمدﷺ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں ۔ ان کی تمنا تھی کہ ان کے بھائی کو وہ عزت ملے جو کبھی ختم نہ ہو۔ یہاں تفصیل کی ضرورت نہیں ، اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ حضرت شیماء رضی اللہ عنہا نے اپنی آنکھوں سے وہ سارے مناظر دیکھے جن کے خواب وہ اپنے رضاعی بھائی(حضرت محمدﷺ) کے لیے دیکھا کرتی تھیں ۔(۱) مکمل واقعہ آگے آتا ہے۔میری ماں ، میری ماں : محبت کوئی سیکھے تو ہمارے نبی علیہ السلام سے سیکھے، ایک دن سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ اس دن ان کے وہ بیٹے (محمدﷺ) جو ان کے پاس چار سال رہے، وہ اب جوانی سے آگے پہنچ چکے تھے، ڈھلتی عمر نے بھی سیّدنا محمدﷺ کی خوبصورتی میں اضافہ ہی کیا تھا، حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے علم میں تھا کہ وہ حضورﷺ کے پاس جا رہی ہیں اور اک دھڑکا بھی کہ شاید مجھے وہ پہچان نہ سکیں ۔ ان کو شاید کسی نے بتایا تو ہوگا کہ اب ان کی داڑھی اور سر میں کچھ سفید بال آ چکے ہیں ، وہ پانچ بچوں کے باپ ہیں ، سب بچیوں کی شادیاں کر چکے ہیں ، اب وہ یتیم مکہ کے ساتھ ساتھ شاہِ بحر و بر ہیں ، لاکھوں ان کے جانثار اور وہ خود سپہ سالار ہیں ، وہ جہاں جاتے ہیں ، فتح و نصرت ان کے قدم چومتی ہے، حضرت جبریل علیہ السلام ان کے جوتے سیدھے کرنے پہ فخر کرتے ہیں ، وہ مکہ، مدینہ اور عرب کے بڑے بڑے شہروں اور بستیوں کے بعد یمن اور ----------------------------- (۱) سبل الہدیٰ: ۳۸۰، نھایۃ الایجاز ۱/۵۵ امتناع الاسماع: ۶/۸۶، لوری کے عربی اشعار اور ان کا ترجمہ گزشتہ سطور میں لکھا جا چکا ہے