حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
ہے اور نہ کوئی اس جیسی صفتِ حلم و برداشت والا ہے (جس سے رشتے جڑتے ہیں )(۱)احساسِ ذمہ داری و بیدار مغزی: چار سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے، اس میں ایک بڑی ذمہ داری کا احساس کرنا، غیرمعمولی انسان سے ہی متوقع ہو سکتا ہے۔ ایک دن آپﷺ کا رضاعی بھائی کسی کام سے گھر آیا تو سیدنا محمد کریمﷺ نے اکیلے بکریوں کی دیکھ بھال کی۔(۲) پھر جب آپﷺ ابوطالب کی کفالت میں آئے تو غنم پروری کے لیے راتوں کو پہاڑوں پہ ان کے باڑوں میں رہ کر دیکھ بھال کا فریضہ ادا کیا۔ اس قسم کے حالات نے آپﷺ کو بیدار مغز اور حساس انسان بنا دیا تھا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ حضورﷺ نہ سست و کاہل تھے اور نہ آرام طلب اور لوگوں پہ بوجھ۔ اور سب جانتے ہیں کہ جس پودے یا درخت میں پھول لگتے ہیں ، وہ اپنا وزن ٹہنیوں پہ بہت کم ڈالتے ہیں ، اس لیے سب کو بھلے لگتے ہیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپﷺ اپنے کاموں کو خود کر لیا کرتے تھے۔ جوتا مرمت، لباس سلائی اور جھاڑو تک بھی پھیر لیتے تھے۔(۳) چاک و چوبند رہنے اور خودداری کی تربیت بنو سعد کے صحرائی گھر اور مکہ میں محنت ومشقت کے ماحول سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ عموماً جن لوگوں کی اُٹھان اس سنتِ نبویﷺ سے ہوتی ہے، وہ کامیاب زندگی بسر کرتے ہیں ۔ ماں کے لمس سے دور، سورج کی تپش، بدلتے موسم، گرمی کی لو، سردی کی ٹھنڈک، دور تک بکریوں کے پیچھے پیدل چلنا۔ یہ وہ امور ہیں جو ابتداء عمر میں ہی اچھے اور تابناک مستقبل کی خبر دیتے ہیں ۔ ----------------------------- (۱) سیرۃ ابن کثیر: ۱/۲۴۹، البدایہ والنہایہ ۳/۴۴۲ (۲) الخصائص الکبریٰ: ۱/۱۰۹ (۳) سبل الہدیٰ: ۷/۹۲