حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ : حضرات صحابہ کرام رحمہم اللہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ الصدیق علم انساب کی معرفت میں ممتاز تھے۔ کہا جاتا ہے کہ علم انساب میں وہ حضرت جبیر رضی اللہ عنہ بن مطعم کے استاد تھے ۔ متاخرین صحابہ رحمہم اللہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مشہور و معروف عالمِ انساب تھے۔حضرت جبیر رضی اللہ عنہ بن مطعم : ابو عدی جبیر رضی اللہ عنہ بن مطعم بن عدی القریشی، عربوں کے ہاں مشاہیر علمائے انساب میں سے ہیں ۔ وہ فتحِ مکہ سے پہلے اسلام لائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب نے انہیں عقیل رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور مخرمہ رضی اللہ عنہ بن نوفل (جو معتبر اور ثقہ ماہرِا نساب تھے)کے ساتھ مل کر انسابِ عرب کی تدوین کا حکم دیا تھا۔ الزبیر بن بکار کی رائے میں حضرت جُبَیر رضی اللہ عنہ نے انساب کا علم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے حاصل کیا تھا۔ حضرت جبیر رضی اللہ عنہ کے تلامذہ میں حضرت سعید بن المسیب (م۵۹۴/۷۱۳ء) اور ان کے بیٹے محمدؒ اور نافع ؒتھے۔ انساب میں معلومات ان سے نقل در نقل ہوتی آتی ہیں ۔ حضرت جبیر رضی اللہ عنہ کا (م ۵۹ ھ /۶۷۹ء) میں انتقال ہوا۔حضرت عقیل رضی اللہ عنہ بن ابی طالب : ابو یزید عقیل رضی اللہ عنہ (بن ابی طالب) الہاشمی حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے بھائی تھے اور عمر میں ان سے بڑے تھے زمانہ جاہلیت میں ان کا نام معروف مشہور تھا جنگِ بدر میں کفار کے ہمراہ تھے اور مسلمانوں کے ہاتھ گرفتار ہوئے، صلحِ حدیبیہ سے تھوڑی دیر پہلے مشرف باسلام ہوئے ۔ مسجدِ نبویﷺ میں لوگ ان سے علمِ انساب سیکھا کرتے تھے اور وہ ایامِ عرب اور تاریخِ قریش لوگوں سے بیان کرتے تھے۔ وہ ان تین علمائے انساب میں ہیں جن سے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے انساب العرب کی تدوین کی فرمائش کی تھی۔ آخر عمر میں وہ نابینا ہوگئے تھے۔ انہوں نے ۶۰ ھ/۶۸۰ء میں انتقال کیا۔مخرمہ رضی اللہ عنہ بن نوفل حضرت ابو صفوان مخرمہ رضی اللہ عنہ بن نوفل بن اھیب الزہری القرشی، ہجرت سے تقریباً چھ سال قبل پیدا ہوئے، فتح مکہ کے بعد اسلام لائے، مخضرمین میں ان کا شمار کبارتابعینؒ اور قدیم عربی اشعار کے راویوں میں ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب نے ان سے فرمائش کی تھی کہ دوسرے دو ماہرینِ انساب سے مل کر انساب مرتب کریں ۔ وہ ان