حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
قاءدُ الغُرِّ المحَجَّلِیْن ہیں ۔(۱)شاہِ عرب کی رُخصتی: اب وہ ضعیف العمر ہو چکے تھے۔ مورخینؒ نے اسّی سے اوپر اور بعض نے ایک سو سے کچھ اوپر سال ان کی عمر کے شمار کیے ہیں ، ان کا دل مطمئن تھا کہ ان کا جانشین ان سے بہت اچھا ثابت ہوگا۔جناب عبدالمطلب اس وصیت کے بعد زیادہ دن نہ ٹھہر سکے اور وہ وہاں پہنچے، جہاں اس دنیا کے ہر مسافر نے جانا ہے۔ ابھی ان کے پوتے کی عمر کے آٹھ سال گزرے تھے، دادا کی وفات پر آپﷺ کے دل کو سخت صدمہ پہنچا۔ ویسا ہیغم جو آپﷺ کے قلبِ منور کو اس دن پہنچا، جب آپﷺ کو یہ معلوم ہوا کہ سب بچوں کے باپ ہوتے ہیں اور دادا بھی، لیکن میرے ابو نہیں ، نہ جانے وہ کہاں رہتے ہیں نظر نہیں آتے، جب ننھے محمدﷺ نے اُمّ ِایمن رضی اللہ عنہا دادا یا اپنی امی سے یہ سوال کیا ہوگا تو نہ جانے جواب دینے والے نے کس حوصلے اور دل گرفتگی کے ساتھ ننھے محمدﷺ کے اس معصومانہ استفسار کا سامنا کیا ہوگا۔ آج دادا کی جدائی نے ایک بار پھر والد اور والدہ کے سائے سے محرومی کا غم تازہ کر دیا تھا۔ آج یہ باتیں قلبِ محمدﷺ کو ستا رہی تھیں اور ادھر شہرِ مکہ کا ہر فرد اپنے قائد و راہنما کی وفات کی وجہ سے سوگوار تھا، جناب عبدالمطلب نے خونِ جگر سے ابراہیمی شعائرِ حرم کی تعمیرِ نو کا بیڑا اُٹھایا تھا، اس لیے وہ محبوبِ اہل حرم تھے، ان کے نام سے مکی تاجروں کو راستوں کا امن ملتا تھا اور ان ہی کی نسبت سے وہ حبشہ، یمن، بصریٰ، یثرب (مدینہ) طائف اور مصر کے شاہی درباروں میں پہچانے جاتے تھے، جب سینکڑوں سوگوارانِ حرم اپنے بزرگ قائد و محترم سردار کا جنازہ کندھوں پہ اُٹھا کر معلی کے قبرستان کی طرف بڑھ رہے تو حضرت امّ ایمن رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ پیارے محمدﷺ بھی دادا کی چارپائی کے ------------------------ (۱)المواھب اللدنیہ: ۱/۴۴۸