حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے السیرۃ النبو یہ ج:۱، ص ۱۴۰ میں اس وقت آپ کی عمر بارہ سال بتائی ہے انہوں نے پڑائو ڈالا۔(۱)یہ سردارِ دو جہاں ہے: اس بات پر تمام روایات متفق ہیں کہ قریش کے لوگ تجارت کے لیے مختلف شہروں میں جاتے تھے اوراپنے شام کے سفروں میں پہلے بھی اس راہب کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ پہلے کبھی نہ تو اپنی خانقاہ سے نکلتا تھا اور نہ کبھی ان کی طرف کوئی توجہ دیتا تھا لیکن اس مرتبہ جب انہوں نے پڑائو ڈالا تو یہ راہب استقبال کے لیے آیااور ان کے درمیان گھس گیا اور حضور نبی کریم ﷺ کا دستِ مبارک پکڑ کر کہنے لگا کہ ’’ یہ سارے جہانوں کے سردار ہیں ، یہ رَبّ العالمین کے پیغمبر ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ رحمتہٌ للعالمین بنا کر بھیجے گا‘‘۔(۲) قریش کے لوگوں نے پوچھا: تمہیں کیا پتہ کہ حضرت محمدﷺ نبی ہیں ؟ راہب نے کہا: جب تم لوگ گھاٹی سے سامنے آئے تو ہر درخت اور ہر پتھر نے ان کو سجدہ کیا، اور درخت اور پتھر نبی علیہ السلام کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے، اور دوسری علامت یہ کہ انہیں مہرِ نبوت کے ذریعے پہچان رہا ہوں ، جو ان کے مونڈھے کی ہڈی سے نیچے سیب کی طرح موجود ہے۔ پھر اس نے قافلے کے لیے کھانا تیار کیا۔ ترمذی کی روایت میں ہے کہ وہ کھانا وہیں درخت کے پاس لے کر آیا۔ اس وقت حضور ﷺ اونٹوں کو چرانے گئے ہوئے تھے، جب واپس تشریف لائے تو قافلے کے دوسرے لوگ درخت کے سائے میں بیٹھ چکے تھے، اور اب سائے میں بیٹھنے کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی تھی لیکن جب حضورﷺ تشریف لائے تو درخت کی شاخوں نے جھک کر آپ ﷺپرسایہ کردیا۔ اس پر راہب نے لوگوں کو متوجہ کرکے کہا : دیکھو یہ درخت ان پر جھک کر سایہ کر رہا ہے۔ اس ------------------------------- (۱) محمد بن اسحٰق وغیرہ کی روایت میں اس راہب کا نام بحیرا بیان کیا گیا ہے۔ (۲) جامع ترمذی ،ابواب المناقب