حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
اس قسم کے خوارق و محیر العقول واقعات نے دادا حضرت عبدالمطلب کو جہاں خوش اور پراُمید کیا وہاں انہیں بے حد محتاط اور متفکر بھی کر دیا۔ ایک دن جب کسی یہودی نے ان کو بتایا کہ آپ کا پوتا آئندہ آنے والے انسانوں کا رہبر و راہنما ہوگا تو انہوں نے صحنِ کعبہ میں موجود اپنے بیٹے ابوطالب کو کہا: سن لیا لوگ تمہارے بھتیجے کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ اب تمہارا کام ہے تم اپنے بھائی عبد اللہ کی یادگار کی حفاظت کرو۔(۱) ایک دن ان کے بارہ بیٹے جمع تھے۔ ان کو فرمایا: سنتے ہو، میرے محمدﷺ کی شان کہاں کہاں معروف ہو چکی؟ اس( نعمتِ الٰہی اور بھائی کی امانت) کا خیال رکھو!(۲)ہر کوئی فدا ہے محمدﷺکے جمال پر: مکہ کے اندر محبتوں اور چاہتوں کے مناظر ایسے کہ وہ کبھی بھی اور ایک دن کے لیے بھی پیارے حضرت محمدﷺکو حلیمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نہ بھیجیں ، ادھر حلیمہ رضی اللہ عنہا کے گھر دوسال رحمتوں کی بارش ہو چکی تھی، اُن کے کمزور جانور صحت مند ہو گئے تھے، درختوں پہ پھل آنے لگے، خشک سالی خوش حالی میں بدلی، حلیمہ رضی اللہ عنہا کا گھر کیا مہبطِ انوار ہوچکا تھا اس لیے کہ یہاں حضرت محمدﷺ جلوہ افروز رہ چکے تھے۔ فرشتے نہ جانے کتنی بار دن میں صلوٰۃ و سلام اور نزولِ رحمت کے لیے حاضر ہوتے ہوں گے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : حضور نبی کریمﷺ کی برکات کا شہرہ (ہمارے علاقے میں ) ہو چکا تھا۔(۳) ان فضائل و انوارات کی موجودگی میں ان کا دل چاہتا تھا کہ سیدنا محمدﷺ مزید ان کے گھر میں جلوہ افروز رہیں ، لیکن دو سال جو مدتِ رضاعت کے تھے وہ پورے ہوئے --------------------- (۱) الطبقات الکبریٰ: ۱/۹۵- الوفا: ۱/۷۵، تاریخ دمشق ۳/۸۵، المنتظم: ۲/۲۷۴ الموسوعۃ فی صحیح السیرۃ النبویۃ ۱/۱۰۸ (۲) الخصائص الکبریٰ: ۱/۱۳۹، الاکتفاء: ۱/۱۰۴ سبل الہدیٰ: ۱/۱۲۹، امتاع الاسماع: ۴/۹۷ (۳) الزھر الباسم: ۱/۴۱۴