حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
عالم: ایسا نہیں لگتا کہ آپ کے بیٹے ہوں ، مجھے معلوم ہوتا ہے، ان کا (منور) چہرہ اور ان کی (سرمگیں اور سرخ ڈوروں والی) آنکھیں (کہہ رہی ہیں ) یہ اس اُمت کے نبی( علیہ السلام ) ہیں ۔ جبکہ وہ یتیم ہوں گے (ابو طالب نے بتایا کہ یہ یتیم ہیں ، سچ کہتے ہو) ابوطالب: اے عالم! ذرا وضاحت کیجیے کہ نبی( علیہ السلام ) کسے کہتے ہیں ؟ عالم: ان کے پاس آسمان سے (کلامِ الٰہی)وحی کا نزول ہوتا ہے اور وہ ( اللہ کا پیغام) لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔ عالم نے جب یہ کہا: یہ آنکھیں اور یہ چہرہ زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ حضرت محمدﷺ اللہ کے نبی ہیں ، تو ابوطالب نے کہا: اے عابد! جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں ، ( اللہ اس پر قادر ہیں ) بے شک اللہ بزرگ و برتر ہیں ۔ پھر وہ حضورﷺ سے مخاطب ہوئے۔ ابوطالب: بھتیجے! کیا تم نے اس (عابد) کی بات سنی ہے؟ حضرت محمدﷺ: اَیْ عَمِّ! لاَ تَنکِرْ لِلّٰہِ قُدْرَۃً ’’چچا جی!(جو یہ کہہ رہے ہیں وہ سب ممکن ہے) اللہ کی قدرت سے کوئی چیز بعید نہ سمجھیے!(۱)بَحِیْریٰ سے معروف ملاقات: اس عالم و عابد کی یہ باتیں سن کر ابوطالب کو فکر ہوئی کہ ان کے مبارک بھتیجے کو کوئی نقصان نہ پہنچائے، اس عابد نے ان کو خبردار کیا کہ اس بچے کو یہودیوں سے بچائے رکھنا۔ لیکن اس کے بعد سفر شروع رہا اور اسی سفر میں ایک دوسرے عالم سے ملاقات ہوئی جو ’’بحیراء عالم‘‘ سے ملاقات کے نام سے معروف ہے۔ اب اس کا خلاصہ اور اس کی علمی تحقیق لکھی جاتی ہے۔ --------------- (۱)الطبقات الکبریٰ: ۱/۱۲۲، الخصائص الکبریٰ: ۱/۱۴۵، سبل الہدیٰ: ۲/۱۴۰، السیرۃ النبویۃ:۱/۲۰۹