حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
عبدالمطلب گھوڑے پر سوار ہوئے، روایات ہیں کہ ان کے پیچھے سردارانِ مکہ ورقہ بن نوفل اور عمرو بن نوفل بھی وہاں پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے دیکھا، حضورﷺ ایک گھنے درخت کے نیچے کھڑے ہوئے تھے۔ (اسے شجرِ یمنٰی یا شجرۃ الیمن کہا جاتا تھا) اس کے پتوں اور ٹہنیوں سے حضورﷺ کھیل رہے تھے۔(۱) عبدالمطلب: (حضورﷺ کو دیکھا تو یقین نہ آیا معمول میں پانچ سال کا بچہ اتنا بڑا نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے بطور تعجب) حضورﷺ سے پوچھا: لڑکے! تم کون ہو؟ حضرت رسولِ اکرمﷺ: میں محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب ہوں ۔ عبدالمطلب: تم پر میری جان قربان ہو، میں تمہارا دادا عبدالمطلب ہوں ، یہ کہا اور عبدالمطلب نے حضرت محمدﷺ کو سینے سے لگا یا، آب دیدہ ہو گئے، اپنے گھوڑے پہ بٹھایا اور حضورﷺ کو لے کر شہر میں تشریف لے آئے۔(۲)اور تم گم ہوئے، ہم نے راہ دکھائی: اس واقعہ کے بعد ایک زمانہ گزرا، حضورﷺ بالغ ہوئے، شاندار جوانی گزاری، قابلِ رشک لمحاتِ شباب سے ارضِ حرم کو نور بخشا، یہ زمین ایک انسانِ کامل کے پیروں کی آہٹ سننے کو ترس گئی تھی، آپﷺ نے اپنے بلند پایہ اخلاق، معطر اقوال، مہذب اعمال و خدمات کے ذریعے حرم اور جوارِحرم کے ہر ذی شعور انسان کے دل میں جگہ پائی۔ پھر ایک دن آیا آپﷺ نے اپنے قرب و جوار میں رہنے والوں کو اللہ کا پیغام سنانا شروع کیا۔ اس قسم کی خبریں آپﷺ کے پاس حضرت جبریل علیہ السلام لے کر آتے تھے، ایک دن وہ سورۃ الضحیٰ لے کر آئے، اس میں اللہ نے حضورﷺ کو ان کے سنہری بچپن اور یتیمی کے ایام کی یاد دلائی اور حضورﷺ کو یہ بھی یاد کروایا۔ وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَھَدیٰ ----------------------------- (۱) الآلوسی: ۱۵/ ۳۶۸ (۲) سبل الہدیٰ: ۱/۳۹۰، السیرۃ الحلبیہ: ۱/۱۳۸، تاریخ الخمیس ۱/۲۲۸ شرف المصطفیٰ: ۱/۳۸۳، الوفا : ۱/۷۲، سمط النجوم ۱/۳۱۵