حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
سعادت میں بھی اسی گھر میں موجود تھیں جہاں سے دنیا کو روشنی دینے کے لیے مینارِ ضیا اُبھرا اور وہ اس وقت بھی تھیں جب اس دنیا کو سوگوار چھوڑ کر حضورﷺ اپنے’’ رفیقِ اعلیٰ‘‘ سے جا ملے۔ ان کے بیانات کی ایک جھلک دیکھئے، فرماتی ہیں : حضور اکرمﷺ نے کبھی بھوک کی شکایت نہیں کی، نہ بچپن میں اور نہ بڑے ہو کر کبھی بھی۔(۱) یعنی صبر و شکر اور قناعت و راضی برضا رہنے کی جو عادت ابتدائی ایام میں تھیں وہی عادت دنیا سے رُخصتی تک پورے تریسٹھ سال نظر آتی رہیں ۔ ایسا نہیں ہوا کہ نوعمری میں کچھ عادات قابلِ اعتراض تھیں اور بلوغت پر آپﷺ نے شعور والے کام شروع کر دیے یا جوانی میں وہ عادات و خصائل آپﷺ کو نصیب نہ تھیں جو وحی کے نزول کے بعد شروع ہوئیں ۔ بلکہ آپﷺ کی حیاتِ طیبہ جن خطوط پر استوار ہوئی ان ہی پر کامل ہوئی۔ آپﷺ ہمیشہ سے ہمیشہ تک کریم، حسین، حلیم، خلیق، مبارک، علیم اور صاحبِ اسوۂ مبارکہ رہے۔بہادری اور حوصلہ مندی: اس نوعمری میں کئی واقعات ایسے پیش آئے جن میں سیّدنا محمد کریمﷺ کی فطری بہادری اور شجاعت کے مناظر مکہ والوں نے دیکھے۔ جب آپﷺ نے چچا زبیر کے ساتھ یمن کا سفر کیا، تو ایک ایسے اُونٹ پر سواری کی جو کسی بھی شخص کے قبضے میں آنا تو دور کی بات تھی اسے قریب بھی نہ آنے دیتا تھا، آپﷺ کے اس اقدام سے اس اونٹ نے لوگوں کا راستہ چھوڑ دیا اور آپﷺ پورے قافلے کو بچا لائے۔(۲) حضرت عبدالمطلب اور ابوطالب کے ساتھ بڑی بڑی مجالس یا دارالندوہ میں جب نکاح کی مجالس منعقد ہوتیں یا کوئی بھی قومی و ملی فلاح و بہبود کی مشاورت ہوتی تھیں ، ان مجالس میں نبیِ رحمتﷺ سب سرداروں سے آگے، مجلس کے روح رواں عبدالمطلب، ابوطالب یا زبیر بن عبدالمطلب کے پہلو میں بیٹھے نظر آتے تھے تو کبھی وہی ---------------- (۱)الخصائص الکبریٰ :۱/ ۱۴۷ الاکتفا: ۱/۱۱۱، عیون الاثر: ۱/۵۱، المختصر الکبیر: ۱/۹ (۲) سبل الہدیٰ: ۲/۱۳۸