حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
دے دی۔ سن لو! نہ مجھ سے پہلے کسی کو یہ اجازت تھی کہ اہل حرم پر حملہ آور ہو اور نہ میرے بعد کسی کو اجازت ہوگی۔(۱) اس گھر کے تا قیامت متولّی حضرت محمدﷺ ہی تھے، اسی لیے جب آپﷺ ابھی نوعمر تھے اور بیت اللہ کی دیواروں کو صدمہ پہنچا تو حضورﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔(۲) اور جب حضور جوان ہوئے تو ابوطالب کے یہ سارے کام جو تعمیر و حفاظتِ کعبہ اور خدمتِ حجاج سے متعلق تھے، ان تمام قومی و ملی امور کی نگرانی بھی حضورﷺ ہی فرماتے تھے اور ظہورِ اسلام کے بعد کچھ دنوں کے لیے آپﷺ کو بیت اللہ سے روک دیا گیا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جرأتِ ایمانی نے اہلِ اسلام کے لیے اس کے دروازے کھلوا دیے۔(۳) ایک دن کعبہ کے کلید بردار نے آپﷺ کو اس گھر میں جانے سے روکا تو آپﷺ نے فرمایا: اے طلحہ! اس گھر کی کنجی بہت جلد میرے ہاتھ میں ہوگی میں جسے چاہوں گا، دوں گا۔ چنانچہ فتح مکہ کے دن آپﷺ کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔(۴) اور اب تاقیامِ حشر حضورﷺ کے غلاموں کو ہی یہاں عبادت و حفاظت اور خاکروبی کا حق ہے اور بس، بیت اللہ کو روزِ اوّل سے حضورﷺ کے نام کی اذان کا انتظار تھا۔کعبہ کی حفاظت حضور ﷺکا معجزہ: خدا کا یہ نظام بھی کس قدر معنٰی خیز اور فکر انگیز ہے کہ ابرہہ ایک ملک کا طاقت ور ترین بادشاہ لیکن کعبہ پر قبضہ و تخریب نہ کر سکا، اور اللہ کے جس محبوب بندے نے اس پر اسلام کا پرچم بلند کرنا تھا، وہ پیدا ہوئے تو ان کے والدِ گرامی صرف چند چیزیں وراثت -------------------------------- (۱) تاریخ الخمیس: ۱/۱۹۲ (۲) اخبار مکہ لازرقی ۱/۱۵۷ (۳) سبل الہدیٰ: ۲/۳۱۹، تاریخ الخمیس :۱/۲۹۳ (۴) الخصائص الکبریٰ: ۱/۴۴۲