حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
’’دارالنابغہ ‘‘جہاں ابوالرسول آرام فرما ہوئے وہ جگہ مسجد الاجابہ اور مسجد نبویﷺ کے درمیان ہے یہیں بنو نجار آباد تھے۔(۱)۱۹۸۰ ء میں مسجد نبویﷺ کی توسیع میں یہ مکان کھودا گیا، اس میں بعض صحابہؓ کی قبروں کے ساتھ حضرت عبد اللہ کی قبر کو بھی کھودا گیا، صحابہ کی طرح ان کا جسد بھی محفوظ تھا۔(۲)عبد اللہ کی وفات کی خبر: حضرت آمنہ اپنے جسم میں ایک نور کو محسوس کر رہی تھیں ، ایک ایسا ’’راز‘‘ کہ اسے اپنے شوہر نامدار کے علاوہ کسی کو بتا بھی نہ سکتی تھیں اس ’’اُمید‘‘ نے حضرت عبد اللہ کے انتظار کو شدید تر کر دیااور جب حارث اپنے بھائی عبد اللہ کی موت کی خبر لائے تو پوری وادی امّ القریٰ سوگوار ہو گئی، دوسروں کو سہارا دینے والا سردار مکہ(عبدالمطلب) آج اپنے آپ کو بے سہارا سا محسوس کر رہا تھا۔ آمنہ بیوہ اور حضرت محمدﷺ یتیم ہو چکے تھے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یہ واقعہ عبد اللہ کے بھائیوں (حضورﷺ کے چچائوں ) ان کی بہنوں (حضورﷺ کی پھوپھیوں ) پر شدید اثر انداز ہوا، اللہ کے رسولﷺ اس وقت بطنِ مادر میں تھے۔(۳) حضرت آمنہ کو بھی پتہ چلا تو ان کو بھی صدمے نے آ لیا۔ ان کے صحن میں ایک عالمی خوشی کا سورج طلوع ہونے والا تھا، جس کے تصور سے آمنہ کا دل باغ باغ ہوتا اور عبد اللہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ بجھ بھی جاتا، ان کے دل کی دنیا ویران اور سہاگ اُجڑ چکا تھا عبد اللہ سے اللہ نے جو کام لینا تھا وہ کر گئے، اب یہ امانت آمنہ کے پاس تھی۔ یہ بھی اپنی ذمہ داری پوری کریں گی اور دارالسلام میں اپنے محبوب شوہر سے جا ملیں گی۔ نام رہے گا تو صرف اللہ کا یا ان کے بیٹے محمدﷺ کا۔شوہر کی وفات پر حضرت آمنہ کے اشعار: ایسی سوگوار فضائوں میں عربوں کا غم اشعار میں ڈھل جاتا تھا۔ حضرت آمنہ بھی ---------------------------- (۱) وفاء الوفاء: ۱/۱۶۹، الخصائص الکبریٰ: ۱/۱۳۴ (۲) اثمار التکمیل ۲/۱۸۹ (۳) سیرۃ ابن کثیر: ۱/۲۰۴