حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
(۳) حکومت سے خالی جزیرہ: سیّدنا محمد کریمﷺ نے جہاں قدم رنجہ فرمایا وہاں قبائلی نظام تھا، کوئی منظم حکومت نہ تھی، اس لیے اگرچہ انفرادی اور کبھی اجتماعی رکاوٹیں دعوتِ اسلام کے رستے میں آئیں ، توان کو دور کرنا آسان ہوگیا، اگر یہاں حکومت ہوتی، اس ملک کی اپنی فوج اور پولیسہوتی تو رکاوٹیں اتنی مضبوط ہوتیں تو اسلام کے غلبے میں دیر لگ سکتی تھی۔ اس خطے میں اسلام کی ابتدائی اور کامیاب محنت کا نبوی انداز ہمیں یہ سبق بھی دیتا ہے کہ دعوت کا کام حکومتوں سے ٹکرائو کے بغیر کیا جائے تو وہ فطرتِ اسلامی کے زیادہ قریب ہوگا۔ اس لیے کہ اس کی ابتدا اور اس کے پھیلائو کے لیے اوّلاً ایسا علاقہ منتخب کیا گیا جہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔(۴) عربی زبان و ادب سے معمور علاقہ : تاریخِ انبیاء(علیہم السلا م) شاہد ہے کہ سب نبیوں کو ان کی ہم زبان قوموں میں بھیجا گیا۔ چنانچہ حضرت نبی مکرمﷺ کی زبان عربی تھی، آپﷺ کو عربی بولنے والوں میں بھیجا گیا۔ اس زبان میں لطافت و شیرینی کے علاوہ یہ خاصیت بھی ہے کہ یہ ایسی جامع لغت ہے جو مختلف معانی کو کم سے کم الفاظ میں سمو لیتی ہے۔ آخری کتاب کے لیے ایسی زبان کی ہی ضرورت تھی جس کے الفاظ کم اور معانی زیادہ ہوں ۔ اس لیے نزولِ قرآن سے پہلے قلوب و اذہان کو قرآنی فصاحت کی تفہیم کے لیے تیار کیا گیا۔(۵) علم و ہنر سے محرومی: جن دلوں پہ قرآن و ایمان اور حکمت کے کلمات سیدنا محمد عربی علیہ السلام نے لکھنے تھے ان کے دل کے صفحات پہ پہلے سے کچھ لکھا ہوا نہیں تھا۔ جب آپﷺ نے درسِ توحید کو عام کیا تو ان کے پاس بت پرستی کی ایک دلیل تھی کہ ان کاموں کو ہم اس لیے کرتے ہیں ہمارے آباء و اجداد نے کیے ہیں ۔(۱) ان کی اس اکلوتی دلیل کو سیدنا محمدﷺ نے اعلانِ نبوت سے پہلے ہی اپنے اخلاقی نور سے زائل کر دیا تھا۔ لوگ سمجھ گئے تھے کہ مُحمد الصَّادِقِ وَالْاَمِیْن کسی بھی اجدادی رسم میں شامل نہیں ہوتے اس کے باوجود معزز و محترم ہیں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کا مجوزہ آبائی دین کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اب ان مجاورانِ حرم کے دلوں پہ آپﷺ نے جو لکھا وہ خوب جلی نظر آیا اور انمٹ ایسا کہ اسے نہ ظلم و جبر مٹا سکا اور نہ طمع اور لالچ جھکا سکی۔ اس کے برخلاف اہلِ کتاب یہود و نصاریٰ مکہ میں کم اور مدینہ میں زیادہ رہتے تھے۔ ان میں سے بہت کم لوگ فیضِ نبوت کو دل میں جگہ دے سکے، اس لیے کہ انہوں نے ایک سبق یاد کر رکھا تھا جسے نظرانداز کرنا مشکل امر تھا۔ ----------------------------------- (۱) المائدہ: ۱۰۴، الاعراف: ۲۸، یونس: ۷۸