حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
اللہ اس بندے کے لیے کافی ہو گئے جسے زمین والے محمدﷺ اور آسمان والے احمدﷺ کے نام سے پکارتے تھے۔ اس کفایتِ الٰہی کا ایک رنگ یہ نظر آیا کہ اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کو اپنی حفاظت میں لے لیا اور بڑے پیار سے گھر لائیں ۔ مکہ پہنچے تو آپﷺ بلک بلک کر رو رہے تھے۔ آج آمنہ کے لال کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ اس واقعہ کا عبدالمطلب پر گہرا اثر ہوا اور محمدﷺ کے لیے ان کے سینہ میں ماں کی محبت اور باپ کی شفقت یکجا ہو گئیں ۔ وہ آپﷺ پر بے حد مہربان تھے،اب پہلے سے زیادہ وقت دینے لگے، بڑی محبت سے پیش آتے اور لطف و کرم کی بارش کرتے، ہر آن آپﷺ کا خیال رکھتے، ہر طرح سے دل جوئی کرتے، اپنی ذات اور اپنی اولاد سے بڑھ کر آپﷺ کا فکر کرتے۔یتیم یا’’ دُرِّ یتیم‘‘؟ دنیا میں آنے سے پہلے والد اور انتہائی کم عمری میں امی کی وفات نے آپﷺ کو تمام یتیموں میں مثالی بنا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کو جو کچھ دیا، بے مثال و لاجواب عنایت فرمایا۔ یتیمی بظاہر محرومی کا نام ہے، درحقیقت اس کو اللہ کی نعمتوں کے حصول کی مجاہدانہ کوشش کہا جا سکتا ہے۔ یہ وہ نبویﷺ طریقہ ہے جسے اپنا شعار بنانے والے یتیم نہیں ،’’ درّ یتیم‘‘ ہوتے ہیں ۔(۱) ایسے بے شمار واقعات تاریخ انسانی میں بکھرے پڑے ہیں کہ والدین سے محروم لوگوں نے اپنی جہدِ مسلسل، شرافت اور حسنِ نیت سے وہ کمالات حاصل کیے جو سہاروں کی موجودگی میں کم نظر آتے ہیں ، اس قسم کے لوگ اپنی راہیں خود متعین کرتے ہیں ۔ انہیں اپنا معاون خود بننے کی عادت ہو جاتی ہے۔ ایسے نوعمروں کے لیے حضرت محمدﷺ کے ایامِ یتیمی میں بہت بڑی راہنمائی موجود ہے، اور قرآنِ کریم کا اعلان ہے: ------------------------ (۱) شرح الزرقانی: ۸/۴۵۱