حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
محبوب المالکﷺ دے دیا۔ تم نے ربُّ العالمین کی عطا پر بھروسہ کیا، اس نے تمہیں رحمۃٌ للعالمینﷺ دے دیا۔ تم نے اپنی ضرورت کا سوچا، اللہ نے دیا تو اپنی شایانِ شان دیا۔ اے صحرائے عرب کے مسافرو! سحابِ نور تمہارے ساتھ ہے، ملائکہ صف بستہ تمہارے دائیں بائیں ، آگے اور پیچھے ہیں ۔ آج آسمان کے دریچے کھول دیے گئے اور کرم کی بارش برستی ہے جو اب تھمنے کا نام نہ لے گی، قیامت کی صبح تک سیراب کرے گی، ان دلوں کو جو اپنے اندر امیدوں کے وہ چراغ جلائیں گے جو تم نے جلائے، وہ اتباع کریں گے، اسی مولا و آقا کی جو تمہاری گود میں ہے، اے حلیمہ رضی اللہ عنہا ! شہنشاہوں کے نام مٹ جائیں گے عبد اللہ کے دُرِّیتیمﷺ، آمنہ کے لالﷺ کا نام ہی چلے گا۔ اس کے ساتھ تیرا نام بھی تاریخ انسانیت کے صفحات پر زر ّیں نقوش میں لکھا جائے گا۔حلیمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی طرف: حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا اور حارث فرحاں و شاداں باتیں کرتے جا رہے تھے انہیں دوجہاں کی دولت مل چکی تھی۔ اسے کبھی گود میں رکھتے کبھی کمر پر بٹھاتے حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا مہر و وفا کی یہ داستان لوگوں کو سنا کر حضورﷺ سے اپنے تعلق کا اظہار کیا کرتی تھیں ، ذرا اس لذیذ کہانی کے چند جملے ان ہی کی زبانی سنتے ہیں ، فرماتی ہیں : میں نے اپنے خچر پر اپنے ساتھ آنحضرتﷺ کو بھی بٹھا لیا۔ اب یہ خچر اتنا تیز چلا کہ سارے قافلے کو پیچھے چھوڑ گیا۔ یہاں تک کہ ساتھیوں میں سے کسی کا گدھا بھی چلنے میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکا بالآخر میری ساتھی دایائیں مجھ سے کہنے لگیں : اے بنت ابی ذؤیب! تمہیں کیا ہو گیا؟ اتنا تیز مت چلو ذرا ہمارا بھی خیال رکھو۔ کیا یہ وہی خچر نہیں ہے جس پر تم آئی تھیں اور جسے ایک ایک قدم چلنا مشکل ہوتا تھا اور اب اس قدر تیزی؟ میں نے ان سے کہا: ہاں ہاں خدا کی قسم یہ وہی ہے۔ وہ کہنے لگیں : خدا کی قسم اس کا معاملہ عجیب ہے۔(۱) ------------------------- (۱) المواہب اللدنیہ، ۱/۸۲، سیرۃ ابن اسحاق: ۱/۲۵، تاریخ الخمیس: ۱/۲۲۴