حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
سے اس لیے تشبیہ دی گئی کہ اب تمام شہر بیابان کی طرح ہیں ، ان میں سیدنا محمدﷺ کے علاوہ کوئی’’ شجرِ ایمان‘‘ نہیں ہے۔ (اس درخت نے پیدائشی سال میں ہی پھل دینا شروع کر دیے اور لوگوں کی زبان سے کہلوایا گیا کہ اب حضرت محمدﷺ ہی وہ نبی علیہ السلام ہیں جن کی وجہ سے ہدایت مل سکتی ہے۔ آپﷺ کو نظرانداز کر کے چلنے والا بھٹک جائے گا)۔ اب اس آیت میں ہدایت کا مفہوم یہ ہے: اے نبیﷺ! ہم نے آپﷺ کو عقلِ کامل، ہدایتِ وافیہ اور معرفتِ تامہ سے نوازا۔(۱) ان تمام نعمتوں کی ابتدا ء ایامِ طفولیت سے کر دی گئی تھی۔اخلاقِ عالیہ کی دعوت: اب وہ وقت آ گیا تھا کہ سیدنا محمدﷺ اپنے اخلاق و کردار کی روشنی مکہ اور گرد و نواح کے مکینوں کے دلوں تک پہنچائیں ۔ ایامِ بلوغت تک سیّدِ دو عالمﷺ اس حد تک قابل رشک صحت مند، خوب رو جوان لگتے کہ مکہ کے نو واردین آپﷺ کو اٹھارہ بیس سال کے صاحبِ رائے، نوجوان اور ذہین و فطین تصور کرتے، آپﷺ سے ہم کلام ہو کر خوش ہوتے۔ معاشرے سے جن برائیوں کو آپﷺ نے جڑ سے اُکھاڑ پھینکا تھا ان کا مشاہدہ اس عمر میں ہوا، حضرت محمدﷺ نے دیکھا وہ ظلم (شرک) میں مبتلا ہیں ، بتوں کی پوجا کرتے ہیں ۔ کم عقلی کی انتہا ہو گئی کہ وہ مردوں کو بھی کھانے لگے ہیں ۔ حیا جو شرفِ انسانی کا جوہر ہے وہ نابود ہے، اس لیے فواحش میں دھت رہتے ہیں ۔ کسی عام انسان کی خیرخواہی تو دور کی بات ہے، رشتہ داروں کے تقدس کا لحاظ ختم ہو چکا ہے۔ پڑوسیوں کو معاف نہیں کرتے، طاقتور کمزور کو کھا جاتا ہے۔(۲) ------------------------- (۱) تفسیر الرازی: ۳۱/۱۹۷، اللباب فی علوم الکتاب: ۲۰/۳۹۱) (۲) سیرۃ ابن ہشام: ۱/۳۳۶، رحمۃ للعالمینﷺ: ۱/۵۴ سبل السلام: ۱/۲۸، السیرۃ النبویہ لابن کثیر: ۱/۳۴۳، سبل الہدیٰ: ۲/۳۹۰، الروض الانف: ۳/۲۴۶