حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
شرف کے خلاف اعمال ہیں ۔ معلوم ہوا کہ قرآن و سنت میں جن کاموں سے روکا گیا ہے ان سے لاتعداد لا مذہببھی رکتے اور ان کو برا سمجھتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو ان غیر شرعی اعمال سے روکنے والا مذہب نہیں بلکہ ان کی اپنی فطرت ہے جو ان کی راہنمائی کرتی ہے کہ فلاں کام اچھا اور فلاں برا ہے۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا: ہر بچہ فطرتِ اسلام پہ پیدا ہوتا ہے اس کے آبائو اجداد اُسے یہودی یا عیسائی بنا دیتے ہیں ۔(۱) جب ہر بچے میں اچھائی کرنے اور برائی سے بچنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے تو نبی علیہ السلام کی فطرتِ اسلام کس درجہ کی ہوگی؟ حدیث میں ہے کہ (اسی فطری سوچ کی وجہ سے) آپﷺ اس وقت (بچپن اور جوانی میں ) بھی نہ شراب کے قریب گئے اور نہ کسی بت کو پوجا اور ان کاموں کو بچپن سے ہی کفر ( اللہ کی شدید نافرمانی) تصور کرتے رہے۔ حضورﷺ خود فرمایا کرتے تھے: یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب ابھی مجھے کتابِ الٰہی (قرآنِ حکیم فرقان حمید) کا علم بھی نہیں تھا اور نہ مجھے ایمان کی وہ معلومات تھیں جو نزولِ وحی سے ملیں ۔ اس کے باوجود صرف اپنی فطری صلاحیتوں کی وجہ سے بچپن ہی سے برائیوں سے بچتا اور نیکیوں ، حج اور غسلِ جنابت کا اہتمام کرتا تھا۔(۲) اعلانِ نبوت سے پہلے کی مکمل زندگی بچپن اور عہدِ شباب کو اس ارشاد کی روشنی میں سمجھا جائے تو بہت سے سوالوں کے جوابات مل جاتے ہیں ۔ مثلاً یہ کہ 1 ان چالیس سالوں میں جب وحی کا نزول نہیں تھا تو آپ ﷺ حج، نمازیں ، طہارت اور دیگر اعمالِ صالحہ کیسے کرتے تھے؟ 2 فسق و فجور، شراب و کباب اور بت پرستی سے کس طرح بچ جاتے تھے۔ جبکہ -------------- (۱) زاد المعاد: ۵/۴۱۰، الروض الانف: ۲/۱۷۶، عَذبُ السلام: ۱/۲۷۹، سبل الہدیٰ: ۱/۱۷۶ (۲) شرح الزرقانی: ۹/۵۷، المواھب اللدنیہ: ۲/۶۱۰، الخصائص الکبریٰ: ۱/۱۵۰، شرف المصطفیٰ: ۱/۴۴۴، السیرۃ النبویۃ: ۱/۲۸۴، امتاع الاسماع: ۲/۳۴۷