حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
بھی کرتے ہیں ۔ اب اُمت کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں اسلوبِ دعوت کو ملحوظ رکھے، خصوصاً جن امتیوں کو یہ سمجھ آ چکی ہے کہ ہر بچہ دعوت کی ذمہ داری لے کر پیدا ہوتا ہے، وہ تو اپنے گھر کے ماحول، آپس کی گفتگو اور بچوں سے باتیں کرنے میں الفاظ کا چنائو اپنے محبوب نبیﷺ سے سیکھیں جن کو اللہ نے زبان ہی ایسی دی کہ داعی اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے جب تجارت کرے، تبلیغ کرے، معاملہ کرے، نرم بات کرے یا سخت لہجہ اختیار کرے، بہرحال، بہرصورت، بہروقت اس کی گفتگو دعوت اِلی اللہ کی کشش رکھتی ہو۔ جب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ جوان ہوئے تو اظہارِ نبوت سے پہلے ہی لوگوں نے تسلیم کر لیا کہ نہ حضرت محمد ﷺ جیسا کوئی نرم کلام ہے اور نہ ان کی طرح کوئی مذاکراتی گفتگو کر سکتا ہے۔(۱) نبی اکرمﷺ نے مزید فرمایا: میری لغت (اور میرا طرزِ بیان و اظہارِ مدعا) حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسا ہے، حضرت جبریل علیہ السلام (جو سارے نبیوں کے پاس آیا کرتے اور ان کی زبان و بیان سے خوب واقف تھے، وہ) مجھ تک ان کے الفاظِ لغت لے کر آئے اور میرے ذہن نشین کر دیے (اب میں بچپن سے جوانی اور پھر اعلانِ نبوت کے بعد اسی پیغمبرانہ طریقے سے بات کرتا ہوں )(۲) اب سمجھنا بہت آسان ہو گیا کہ انبیاء کو ایک خاص اسلوب سے نوازا جاتا ہے جو سب کا مشترکہ ہوتا ہے اور یہ کہ ہمارے نبی علیہ السلام کو دعوت کی زبان دی گئی جس کا یہ اثر تھا کہ ابھی آپﷺ نے کارِ دعوت شروع نہیں فرمایا تھا اس کے باوجود لوگ یہ اثر لیتے تھے کہ یہ اللہ کے نبیﷺ ہیں ۔(۳) ---------------- (۱) الخصائص الکبریٰ: ۱/۱۵۳ (۲) المواھب اللدنیۃ: ۲/۲۲، سبل الہدیٰ ۲/۹۹، اشرف الوسائل: ۱/۱۳۳، السیرۃ النبویہ: ۱/۲۹۶، الخصائص الکبریٰ: ۱/۱۰۸، شرح الزرقانی، ۵/۲۹۶ (۳) الاصابہ، خزیمہ بن حکیم السلمی