حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
انہوں نے دوبارہ وہیں ایڑی ماری (جہاں پہلے ماری تھی) اور وہ جگہ اصل صورت میں آ گئی۔(۱) یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب جناب ابوطالب کو بھی اس لیے تجارتی ضروریات کے لیے نکلنا پڑتا تھا کہ حضورﷺ ابھی کم سن تھے۔ جب آپﷺ جوان ہوئے تو چچا کے بغیر ہی شام تشریف لے گئے اور تجارتی منافع سے اہلِ خانہ کی اعانت کی۔ نبیوں کی سرزمین کی طرف مکہ میں کوئی صنعت اور کاشت کاری نہ تھی، وہاں رہنے والوں کا اکثر گزارہ تجارت سے ہوتا تھا۔ ایک تجارتی قافلہ تیار ہوا توجناب ابوطالب نے بھی ارادہ کر لیا اور نبی علیہ السلام بھی معیت کے لیے تیار ہو گئے۔ (ابوطالب سفری تکالیف سے کم عمر بھتیجے کو بچانا چاہتے تھے لیکن ایسا کس طرح ہو سکتا؟ اس لیے کہ اب وہ وقت آ گیاتھا، جب اللہ نے اپنے محبوبﷺ کے قدموں سے نبیوں کی سرزمین (شام) کو روشن کرنا تھا(۲) یہیں پر آپﷺ نے معراج والی رات میں براق پر سوار ہو کر آنا تھا۔جناب ابوطالب نے جب ساتھ نہ لے جانے کا مشورہ دیا تو حضورﷺ نے فرمایا: چچا جی! مجھے آپ کہاں چھوڑ چلے، نہ میری امی حیات ہیں اور نہ میرے ابو زندہ،یہ سن کرابوطالب کا دل بھر آیا اور حضورﷺ کو ساتھ لے چلنے کا ارادہ کر لیا۔ (بصریٰ) پہنچنے سے پہلے ایک خانقاہ کے پاس سے گزر ہوا، عبادت گزار باہر آیا، قافلے میں حضورﷺ کو دیکھا اور ابوطالب سے سوال و جواب شروع کر دیے۔ عیسائی عالم: ابوطالب! یہ لڑکا جو آپ کے ساتھ ہے یہ کون ہے؟ ابوطالب: (حسبِ عادت فرمایا:) میرا بیٹا ہے۔ ---------------------------------- (۱)امتاع الاسماع: ۸/۳۱۲، السیرۃ الحلبیہ: ۱/۱۷۰، الخصائص الکبریٰ: ۱/۲۱۷، الوفا: ۱/۹۳، سبل الہدیٰ ۲/۱۳۷ امام حلبیؒ نے اس واقعہ کو بچپن کے واقعات میں لکھا ہے (۲) سبل الہدیٰ: ۵/۴۳۳