حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
ان کا یہ آٹھ نوسالہ بھتیجا نہ ہوتا تو وہ بچے سیر نہ ہوتے ابو طالب سب سے پہلے حضور ﷺ کو دودھ دیتے پھر باقی بچے پیتے اور آپﷺ کے لبوں کی برکت سے تھوڑا دودھ سب کے لیے کافی ہوجاتا۔(۱) ابوطالب بڑے کریم، مہربان ، خوبصورت اور مقبول راہنمائے قوم تھے، لیکن وہ فقیر منش آدمی تھے ادھر اللہ نے ان کی اولاد میں بھی برکت دی تھی۔ مہمانداری کی وجہ سے گھر میں کچھ تنگی سی رہتی تھی، نبی علیہ السلام نے ان کے گھر میں قدم رکھاتو خیرات و برکات کا نزول اسی طرح ہوا، جس طرح حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے گھر ہواتھا۔ اس وجہ سے چچا کی محبت میں مزید اضافہ ہوگیا تھا اور گھر کے سب بچے بھی خوش تھے۔ کھانے میں کبھی دودھ رکھاجاتا، تو برکت کیلئے پہلے نبی علیہ السلام کو دیا جاتا اور پھر دوسرے بچوں کو دیا جاتا (جودسترخوان پہ حضورﷺ کے ساتھ ہوتے تھے) اگر کسی بچے کو نبی علیہ السلام کا بچا ہوا کچھ زیادہ مل جاتا تو ابو طالب اس بچے سے کہتے: تم بہت مبارک ہو( اس لیے تمہیں حضو رﷺ کا عطا کردہ) زیادہ ملا ہے۔(۲) جب ابو طالب اپنے بچوں کو صبح سویرے بیدار کرتے تو (وہ سب اٹھ کر دسترخوان پر پہنچنے سے پہلے ہاتھ منہ دھوتے اور پھر دسترخوان پہ جاتے) لیکن حضورنبی علیہ السلام اس شان سے اٹھتے تھے کہ ان کی (پیشانی چمک رہی ہوتی، منہ دھلا دھلایا ہوتا) آنکھوں میں سرمہ کے ڈورے نظر آرہے ہوتے تھے او ر آپﷺ کے سر کے بال اس طرح سنورے ہوتے(گویا نیند کی حالت میں ان کی کنگھی کردی گئی ہے)(۳) ان ایام میں بھی آبِ زم زم ہمارے نبیﷺ کا محبوب مشروب تھا، اس کی خاصیت ہے کہ جس نیت سے پیا جائے اور اس کے پینے کے بعد جو مانگا جائے ، بارگاہِ ------------------------- (۱)عیون الاثر: ۱/۵۰ (۲) شرح الزرقانی :۱/۳۵۴ (۳) عیون الاثر:۱/۵۱، شفا: ۱/۳۶۷، تاریخ الخمیس :۱/۲۵۴،الخصائص الکبریٰ :۱/۲۵۴، الوفاء:۱/۹۳، سیرۃ ابن کثیر :۱/۲۴۱، سبل الہدیٰ :۱/۱۳۵