حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
ابراہیم علیہ السلام کی نشانی اور اسماعیل علیہ السلام کی اولاد موجودہے۔ لوگوں نے کہا: ابراہیم علیہ السلام کی نشانی سے تمہاری مراد ابوطالب ہیں ؟ کہنے لگا:ہاں ، جہلمہ کہتے ہیں : پھر میں کھڑا ہوا، سب اہلِ مجلس ساتھ چلے اور ابوطالب کا درواز ہ کھٹکھٹایا۔ پس ایک شخص تہبند میں لپٹا ہوا آیا، وہ بڑاحسین تھا، سب ان کی طرف بڑھے اور ان سے گذارش کی: اے ابوطالب! وادی میں قحط پڑرہا ہے اور بچے بھوکوں مررہے ہیں اس لیے آئیں اور ہمارے لیے دعا کریں ، تاکہ بارش ہوجائے۔(۱) ابو طالب ایک مجمع کے ساتھ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتّسلیم کو لے کر حرم میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کی پشت کو خانہ کعبہ سے لگا دیا۔ آپﷺ نے بطور تضرع و التجا انگشتِ شہادت سے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا، بادل کا کہیں نام و نشان نہ تھا، اشارہ پاتے ہی ہر طرف سے بادل امنڈ آئے اور اس قدر بارش ہوئی کہ تمام ندی نالے بہنے لگے، اسی بارہ میں ابو طالب نے کہا: وَاَبْیَضَ یُسْتَسْقٰی الغَمام بِوَجْھِہِ ثِمَالُ الْیَتَامٰی عِصْمَۃٌ لِلاَرَامِل۔ محمّدﷺ ایسے منور ہیں اور ان کی جبینِ مبارک ایسی روشن ہے کہ اس کی برکت سے خدا سے بارش مانگی جاتی ہے۔ جو یتیموں کاماوٰی اور مَلْجَا ہیں ۔(۲) ملاحظہ: یہ ان برکات کا تذکرہ ہے، جو جنابِ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ والا صفات سے وابستہ تھیں اور ان کا ظہور اس دور میں ہوا جب حضرت محمد ﷺ جناب ابو طالب کے گھر میں رونق افروز تھے، ابھی مزید معجزات کا ظہور ہوگا، اسی دور (ابتدائے بلوغت) کی چند اور باتیں (جب آپﷺ ۱۲ سال کے ہوچکے تھے) سفرِ شام کی کہانی میں پڑھیے! جو اگلے صفحات میں آ رہی ہے۔ یہاں شہر مکہ کی چند یادیں لکھی جاتی ہیں : -------------------------- (۱) السیرۃ الحلبیہ:۱/۱۶۹،شرح الزرقانی:۱/۴۵۸، الروض الانف :۵/۳۱۵، تاریخ الخمیس :۱/۲۵۳، الخصائص الکبریٰ :۱/ ۱۴۶ (۲) الزَّرْقانی :۱/۳۵۷، المواھِبُ اللّدُنْیَہ: ۱/۱۱۲