خزائن الحدیث |
|
یہاں جذبات مراد ہیں۔ یہ حدیث اس آیت کی شرح ہے۔ اَ لْاِجْتِبَاءُ مِنَ الْجَبْیِ وَالْجَبْیُ ھُوَ الْجَذْبُ، جَبْیٌ کے معنیٰ جذب کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے، وہ مقناطیس کا خالق ہے۔ جو اتنا زبردست مقناطیس پیدا کر سکتا ہے کہ زمین کا چوبیس ہزار میل کا گولا جس کے نیچے کوئی کالم نہیں فضاؤں میں معلق ہے۔ اسی طرح بے شمار عالم سیارات و نجوم اور ہزاروں شمس و قمر سب بِلا ستون فضاؤں میں معلق ہیں اور اپنے راستوں میں تیر رہے ہیں تو اتنا زبردست مقناطیس پیدا کرنے والا جس کوکھینچے گا وہ کیسے بغیر کھنچے رہ سکتا ہے، بندے کو جذب کرنا ان کے لیے کیا مشکل ہے۔ تو نفحات کے معنیٰ ہیں جذبات یعنی کھینچنے کی مقناطیسی لہریں۔ اور حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے نفحات کا ترجمہ کیا ہے اَلتَّجَلِّیَاتُ الْمُقَرِّبَاتُاللہ تعالیٰ کی وہ تجلیات جو بندوں کو اللہ سے قریب کر دیتی ہیں، وہ تجلیات جو بندہ پر پڑجائیں تو وہ اللہ کا پیارا اور مقرب ہوجاتا ہے۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ ان تجلیات کا زمانہ تو معلوم ہو گیا لیکن مکان بھی تو معلوم ہو کہ ان تجلیات کو کہاں ڈھونڈیں، کدھر جائیں؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمایا کہ ان کا مکان بخاری شریف کی حدیث میں ہے: ھُمُ الْجُلَسَاءُ لَا یَشْقٰی بِھِمْ جَلِیْسُھُمْ؎ ہمارے پیارے اور خاص بندوں کی یعنی ہمارے اولیاء کی شان یہ ہے کہ جو ان کے پاس بیٹھ جاتا ہے، جو ان کا جلیس و ہم نشین ہوتا ہے کبھی شقی اور بد نصیب نہیں رہ سکتا، اپنے پیاروں کے صدقہ میں ہم اس کی شقاوت کو سعادت سے بدل دیتے ہیں، شقی کو سعید کر دیتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اہل اللہ کی صحبت اور مجالس ان تجلیات کا مکان ہیں۔ شقاوت کو دور کرنے کے لیے اور سعادتِ دائمی حاصل کرنے کے لیے اہل اللہ کی صحبت میں یہ ------------------------------