خزائن الحدیث |
|
کی شعاعوں سے تویہ مٹی کا کمال نہیں ہے، یہ سورج کی شعاعوں کا کمال ہے ۔ اگر مٹی کو ناز ہو جائے اور سورج اپنا رُخ پھیرلے تب پتا چلے گا کہ مٹی میں کیا چمک ہے، لہٰذا تکبر کا بہترین علاج یہی ہے کہ جب کبھی کوئی تعریف کرے تو فوراً پڑھواَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَ لَکَ الشُّکْرُشکر سے قرب ہوتا ہے اور تکبر سے دوری ہوتی ہے یعنی شکر سببِ قرب ہے اور کبر سببِ بُعد ہے اور سببِ قرب اور سببِ بُعد کا جمع ہونا محال ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہی تکبر بھاگ جائے گا، جیسا کہ ایک مچھر نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا کہ جب اپنا پیٹ بھرنے کے لیے میں خون چوستا ہوں تو ہوا مجھے اُڑا کر لے جاتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ عدالت میں مدعی اور مدعا علیہ دونوں کا موجود ہونا ضروری ہے لہٰذا تم مدعی ہو میں ابھی مدعا علیہ کو بلاتا ہوں اور ہوا کو حاضر ہونے کا حکم دیا۔ جب ہوا آئی تو یہ بھاگ گیا اور کہا کہ میں بھاگا نہیں ہوں بھگایا گیا ہوں کیوں کہ ہوا کے سامنے میں ٹھہر نہیں سکتا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا سے فرمایا کہ تو چلی جا۔ جب مچھر آیا تو آپ نے ڈانٹ کر فرمایا کہ جب مدعا علیہ آیا تو تم کیوں بھاگ گئے۔ اس نے کہا:یہی تو رونا ہے کہ جب ہوا آتی ہے تو میراوجود نہیں رہتا اور میرا پیٹ نہیں بھرتا۔ میں خون چوسنے میں لگا ہوتا ہوں کہ ہوا آتی ہے اور مجھے بھگا دیتی ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعہ کو بیان کر کے فرمایا کہ جب اللہ اپنی تجلیاتِ خاصہ سے تمہارے دل میں متجلی ہو گا تو تمہارے اندھیرے خود ہی نہیں رہیں گے ؎ می گریزد ضدّہا از ضدّہا شب گریزد چوں بر افروزد ضیا جب آفتاب نکلتا ہے تو رات خود بھاگتی ہے، اُسے بھگانا نہیں پڑتا، لہٰذا ظلمات کو بھگانے کی فکر نہ کرو اورآفتاب سے دوستی کر لو، اندھیرے خود بخود بھاگ جائیں گے۔ لہٰذا جب مخلوق تعریف کرے تو کہیے،اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَ لَکَ الشُّکْرُ اللہ تعالیٰ کے شکر سے اپنے اوپر سے نظر ہٹ جائے گی اور اللہ کی عطا پر ہو جائے گی جس سے اللہ کا قرب نصیب ہو گا اور قرب اور بُعد کا جمع ہونا محال ہے، لہٰذا جب شکر پیدا ہو گیا تو تکبر ازخود بھاگ جائے گا۔