خزائن الحدیث |
|
نہیں آئے؟ وہیں میں بھی تم کو مل جاتا ۔ اسلام نے یہ عزت مریضوں کو بخشی۔ مریض کو ساری دنیا کے لوگ حقیر سمجھتے ہیں، مگر اسلام نے یہ عزت اور شرف بخشا کہ بیمار آدمی کو کوئی حقیر نہ سمجھنےپائے، جو حقیر سمجھے گا وہ احمق ہے، کیوں کہ اس کے پاس اللہ ملے گا، اللہ نے فرمایا کہ اگر تم اس مریض کو دیکھنے آتے تو وہیں تو میں بھی تھا، میں اپنے خاص بندوں کے پاس ہوتاہوں اور اپنی نعمتِ خاص سے ان کو نوازتا ہوں۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ بھئی! وہاں اللہ کا قرب ملتا ہے چلو وہیں بیٹھ جائیں، رات دن وہیں بیٹھے رہیں، قرب کو چھوڑنا کہاں جائز ہے؟ خوب دیر تک بیٹھو تو اسلام نے، حضور صلی اللہ علیہوسلم نے منع فرمادیا کہ دیر تک نہ بیٹھو، تھوڑے سے قرب پر راضی رہو، وہ قرب لے کر چلے آؤ، وہ قرب ہمیشہ رہے گا،فنانہیں ہوگا، اللہ کا قرب فنا نہیں ہوتا، اس لیے تھوڑی دیر بیٹھ کر چلے آؤ، کیوں کہ اس کو اگر پیشاب پاخانہ لگ گیا تو مریض کیا کرے گا؟ تمہاری رعایت سے بے چارہ بیٹھا رہے گااس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حکم ہے اور عیادت کی سنت ہے کہ ہلکی پھلکی عیادت کرو، زیادہ دیر مریض کے پاس مت بیٹھو ۔ پس اسلام نے مریض کو یہ عزت دی کہ اس کے قرب کو اللہ تعالیٰ نے اپنا قرب بیان کیا کہ میں تمہیں اس مریض کے پاس ملوں گا۔ اب اس کے بعد کوئی مریض کو حقیر سمجھ سکتا ہے ؟ جو مریض کو حقیر سمجھے گا تو گویا اللہ کو حقیر سمجھنا لازم آئے گا، اس لیے مریض کو محترم سمجھ کرجائے گا اور دعا کرائے گا کیوں کہ دوسری حدیث میں ہے دُعَاءُ الْمَرِیْضِ کَدُعَاءِ الْمَلٰئِکَۃِ مریض کی دعا مثل فرشتوں کی دعا کے ہے۔ مریض کی دعا ایسی ہے گویا فرشتے دعا کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مریض کا رُتبہ مثل فرشتوں کے رکھ دیا، مریض کی عظمت بڑھا دی کہ جاؤ اس سے دعا کراؤ، اس کی دعا مثل فرشتوں کی دعا کے ہے۔ تو میں نے سمجھا کہ آج تائبؔ صاحب کے دعائیہ اشعار سن کر بعض لوگ ترس کھاکر کہیں رات بھر نہ روئیں کہ ارے! اخترؔ بیمار پڑگیا۔ ارے! یہ بیماری سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، دعا تو ضرور کرنا چاہیے، دعا پر کوئی اعتراض نہیں، مگر مریض کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر راضی رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ! جو آپ کا حکم ہے میں اس پر راضی ہوں، مگر جلدی سے آزمایش کی گھڑی گزار دیجیے، آزمایش کو لمبی نہ کیجیے،کیوں کہ ہم ناتواں اور کمزور ہیں اور زیادہ لمبی آزمایش کو برداشت نہیں کرسکتے۔