خزائن الحدیث |
|
یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا وہی تمہارا بھائی آج تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کرے گا۔آہ! بھائی بھی فرما رہے ہیں تو ایسے نبئ رحمت کے آپ مولیٰ ہیں! پھر آپ کی رحمت کا کیا ٹھکانہ ہو گا! ہمارے وہم و گمان سے اور قیل وقال سے آپ کی رحمت بے پایاں بالا تر ہے۔ پس بحقِ ضابطہ ہم مستحقِ رسوائی ہیں لیکن اے ارحم الراحمین! اے مولائے رحمۃ للعالمین! ہم آپ سے بحق رابطہ، بحقِ رحمت، بحق رحمۃ للعالمین فریاد کرتے ہیں کہ ہم رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں اور اس نسبتِ غلامی کا آپ کو واسطہ دیتے ہیں کہ لَا تُخْزِ نِیْ ہمیں رُسوا نہ کیجیےاور معاف کر دیجیے، کیوں کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو جو دعا سکھائی تو اس منفی میں مثبت درخواست پوشیدہ ہے کہ اے خدا! آپ کو ہمیں رُسوا کرنے کی جتنی قدرت ہے اتنی ہی قدرت رُسوا نہ کرنے کی بھی ہے۔ آپ کو دونوں قدرت حاصل ہیں۔ چاہیں تو بحقِ ضابطہ آپ ہم کو ذلیل و رُسوا کر دیں کہ سارے عالم کو ہم منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں اور چاہیں تو بحق ِرابطہ، بحقِ رحمت اور بحقِ محبت جو ہمیں پیدا کرنے اور پالنے کی وجہ سے آپ کو ہم سے ہے اپنی اس رسوا کرنے والی قدرت کے قضیہ کا عکس کر دیں اور ہمیں رُسوا نہ کریں کیوں کہ ہمیں آپ کے خاص بندوں اور بڑے بڑے علماء نے بتایا ہے کہ فلسفہ کا قاعدہ مسلمہ ہے کہ قدرت ضدین سے متعلق ہوتی ہے یعنی قادر وہ ہے جو ضدین پر قادر ہو کہ جو کام کرسکتا ہو وہ نہ بھی کر سکتا ہو اور جو دو طرفہ قدرت نہ رکھتا ہو وہ مجبور ہوتا ہے اور آپ مجبور نہیں ہیں۔ آپ جس طرح رُسوا کرنے والی صفت کے ظہور پر قادر ہیں اسی طرح اپنی ا س صفت کو ظاہر نہ کرنے پر بھی قادر ہیں یعنی آپ کو دونوں پر قدرت ہے۔ آپ ہم کو جتنا رُسوا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اتنا ہی رسوا نہ کرنے کی بھی قدرت رکھتے ہیں۔ لہٰذا اے ارحم الراحمین! اپنی رحمت کے صدقہ میں اپنی رسوا کرنے والی صفت ہم پر ظاہر نہ کیجیے بلکہ اس کا ضد اور عکس یعنی رُسوا نہ کرنے والی صفت کا ہم پر ظہور فرما دیجیے۔ ایک بزرگ سے کسی نے کہا کہ ہم نے تم کو نا مناسب حالت میں دیکھا ہے۔ اس بزرگ نے کہا کہ تم نے تو میری صرف ایک غلطی دیکھی ہے لیکن میری زندگی میں کتنے گناہ ہیں کہ جن کی اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی فرمائی ہے۔ جو تم کہہ رہے ہو یہ تو ان ہزاروں خطاؤں اور گناہوں میں سے ایک ہے جن کو تم نہیں جانتے۔ ہر گناہ گار اپنے گناہوں کی تعداد کو جانتا ہے ، کمیات کو بھی جانتا ہے، کیفیات کو بھی جانتا ہے اور کس جغرافیہ سے گناہ کیا ہے وہ بھی جانتا ہے ۔ لیکن علمِ جغرافیہ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس کی تاریخِ گناہ پر اپنی ستاریت کا پردہ ڈالا ہوا ہے اسی لیے دعا کرتا ہوں اَللّٰھُمَّ لَا تُخْزِنِیْ فَاِنَّکَ بِیْ عَالِمٌاے اللہ! مجھے رُسوا نہ کیجیے کہ آپ میرے تمام گناہوں سے باخبر ہیں۔