خزائن الحدیث |
|
اِنَّ الرِّزْقَ لَیَطْلُبُ الْعَبْدَ کَمَا یَطْلُبُہٗ اَجَلُہٗ؎ رزق بندہ کو اس طرح تلاش کرتا ہے جس طرح اس کی موت اس کو تلاش کرتی ہے ۔ مطلب یہ ہوا کہ ہم جہاں بھی رہیں اتباعِ حق کے رزق کو ہماری روح میں داخل کر دیجیے۔ جسمانی رزق پیٹ میں داخل ہوتا ہے اور توفیقِ اتباع کا رزق روح کے اندر داخل ہوتا ہے، لیکن بلاغت ِکلامِ نبوت کا کمال ہے کہ توفیق کو رزق کے لفظ سے تعبیر فرمایا کہ اتباعِ حق کا رزق ہمیں دے دیجیے، کیوں کہ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اِنَّ نَفْسًا لَّنْ تَمُوْتَ حَتّٰی تَسْتَکْمِلَ رِزْقَھَا؎ کسی نفس کو ہر گز موت نہیں آ سکتی جب تک وہ اپنا رزق مکمل نہ کر لے۔ تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے وَارْزُقْنَافرماکر اُمت کے لیےیہ نعمت مانگ لی کہ اے اللہ! ہمیں مرنے نہ دیجیے جب تک ہم پوری پوری اتباعِ حق نہ کر لیں۔ جس طرح استکمالِ رزقِ ظاہری کے بغیر موت نہیں آ سکتی، اسی طرح اے اللہ استکمالِ رزقِ باطنی یعنی اتباعِ حق کی تکمیل کے بغیر ہمیں موت نہ دے، جب تک اتباعِ حق میں ہم مکمل نہ ہو جائیں ہمیں موت نہ آئے۔ اور حدیثِ پاک کا دوسرا جز ہے وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا اور باطل کو ہمیں باطل دِکھا وَارْزُقْنَا اجْتِنَا بَہٗاور اس سے اجتناب کی توفیق بصورتِ رزق دے، اجتناب عن الباطل کا رزقِ روحانی ہمیں خود تلاش کر لے کہ جس باطل کے نرغہ میں جہاں کہیں ہم پھنسے ہوں اس سے بچنے کی توفیق ہمارے رزق کی طرح وہاں پہنچ جائے اور ہمیں اس باطل سے اجتناب کی توفیق نصیب ہو جائے اور جب تک باطل اور معصیت اور گناہوں کے اعمال سے ہم کو طہارتِ کاملہ، حفاظتِ کاملہ نصیب نہ ہو، اے خدا! ہمیں موت نہ آئے حَتّٰی تَسْتَکْمِلَ رِزْقَھَا یہاں تک کہ میرا نفس آپ کے اس رزقِ روحانی کو مکمل حاصل نہ کر لے۔ اور حدیثِ پاک میںلَنْ تَمُوْتَ کا لفظ آ یا ہے کہ ہر گز کوئی نہیں مر سکتا جب تک کہ وہ اپنا رزق مکمل نہ کر لے۔ تو اتباعِ حق اور اجتنابِ باطل کی توفیق کو رزق سے تعبیر فرمانایہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اُمت ------------------------------