خزائن الحدیث |
|
تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں اللہ سے ۔ رضائے الٰہی کی طلب اور ناراضگی سے پناہ میں دل کو گھلانا اصل علم ہے۔ سیدنا محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ اَنَا اَعْلَمُکُمْ بِاللہِ وَ اَنَا اَخْشٰکُم لَہٗ اے لوگو! مجھے تم میںسب سے زیادہ علم دیا گیا ہے اور اسی سبب سے تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں اللہ سے اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ کَانَ رَسُوْلُ اللہِ مُتَوَاصِلَ الْاَحْزَانِ دَائِمَ الْفِکْرَۃِ؎ ہمیشہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم مسلسل غمگین اور فکر مند رہتے تھے۔ آخرت کا خوف اور اُمت کا غم آپ کو اس حال میں رکھتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہونے کے باوجود عرض کرتے ہیں لَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ اے ہمارے رب! میدانِ محشر میں ہمیں رُسوا نہ کیجیے گا۔ تفسیرِ خازن میں ہے کہ حضرت عزرائیل علیہ السلام غلبۂ خوفِ خدا وندی سے سکڑ کر گوریا کے برابر ہو جاتے ہیں۔ حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ خوف سے فرماتے ہیں کہ کاش! میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا۔ حضرت عمر رضیاللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کاش! کہ میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا۔ مقبولانِ بارگاہ کا یہی حال ہوتا ہے، عظمتِ الٰہیہ کا جس قدر انکشاف ہوتا جاتا ہے ہیبتِ حق کا غلبہ ہو جاتا ہے اور جن کی آنکھیں اندھی ہیں، انہیں اپنے علوم سے صرف حلوا،مانڈا اور معاش کی ضروریات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ بزرگانِ دین کی صحبت نہ ملنے سے یہی حشر وانجام ہوتا ہے۔ بقول حضرت علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اﷲ علیہ کے، کہ نورِ نبوت کے بغیر علومِ نبوت پڑھ لینے سے عملی زندگی کبھی درست نہیں ہو سکتی۔ اس لیے فراغِ درسیات اور علومِ ظاہری کے بعد اہل اللہ کی صحبت میں حاضری ضروری ہے، جس کی مدت حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانویرحمۃ اللہ علیہ نے چھ ماہ تجویز فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عاشق بندے محبوبِ حقیقی کے عشق میں اپنی جان سے بھی بے پرواہ ہیں اور ذکرِ محبوب کی لذت نے ان کو دنیا کے تمام مشاغل سے مستغنی کر دیا ہے، یادِحق میں خلق سے کنارہ کش ہیں،تاکہ تعلقاتِ غیر ضرور یہ سے ذکرِ حق میں خلل واقع نہ ہو اور حق تعالیٰ کییادسے ایسے مست اور بے خود ہیں کہ غیرِ حق سے بالکل التفات باقی نہ رہا، اگرچہ وہ مباح الاصل ہی کیوں نہ ہوں یا کسی درجہ مرجوحہ میں مستحسن ہی ------------------------------