حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
اس مقصد کے لیے کے لیے دس بیٹوں میں قرعہ اندازی کی، نام (حضورﷺ کے والد حضرت) عبد اللہ کا نکلا اور قول کا سچا، کردار کا پکا عبدالمطلب اپنے بیٹے اور چھری کو لے کر صفا و مروہ کی طرف یا بروایت منیٰ کی جانب نکلا جہاں وہ قربانیاں کرتے تھے(۱) لیکن عبد اللہ کی بہنیں اور دیگر قریش رو رو کر یہ التجائیں کرنے لگے: اس معصوم صورت کو ذبح کر کے ہم سے جدا نہ کرو، اس کی جگہ دس اونٹ ذبح کر لو!‘‘ حضرت عبدالمطلب نے مجبور ہو کر دس اونٹوں اورحضرت عبد اللہ کے درمیان قرعہ اندازی کی، لیکن نام عبد اللہ کا نکلا، سمجھ لیا گیا کہ اللہ اسی پہ راضی ہیں کہ عبد اللہ ہی کو ذبح کیا جائے۔ اونٹوں کی قربانی ان کی جگہ قبول نہ کی جائے گی۔ یہ وہی عبد اللہ ہیں جن کی پیٹھ میں نورِ محمدیﷺ منتقل ہو چکا تھا، ان ہی کو حضور کے والد گرامی (حضرت عبد اللہ ) کہا جائے گا، عبدالمطلب نے پھر چھری پکڑی اور عبد اللہ کو ذبح کرنا چاہا لیکن مکہ والے آڑے آئے اس لیے پھر بیس اونٹوں اور عبد اللہ کے درمیان یہی عمل کیا۔ نام پھر عبدالمطلب کے لاڈلے، نیک اور خوبصورت ترین بیٹے کا ہی نکلا۔ اسی طرح دس دس کا اضافہ کرتے کرتے ایک سو اونٹوں تک جب معاملہ گیا تو نام اونٹوں کا نکلا اور انہیں ذبح کر کے نذر پوری کرنے کے لیے اُونٹوں کو صفا اور مروہ کے درمیان راہِ خدا میں قربان کیا جا رہا تھا اور حضورﷺ کے والد عبد اللہ کو اس کی بہنیں اُٹھا کر گھر لے جا رہی تھیں ۔(۲) اس کے بعد عبد اللہ کو بھی اَلذَّبِیْحُ کہا جانے لگا جس طرح ان کے دادا حضرت اسماعیل علیہ السلام کو کئی سو سال پہلے اسی سرزمین میں ’’ذَبیح اللہ ‘‘ لقب ملا تھا۔(۳) اسی واقعہ کی بنا پر ہمارے نبی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے: اَنَا ابْنُ الذَّبِیْحَیْن (۴) ’’میں دو ذبیحوں کا بیٹا ہوں ‘‘ اس واقعہ اور لقب اِبْنُ الذَّبِیْحَیْن کو حضور اکرمﷺ کی خصوصیت میں شمار کیا جاتا ---------------------------- (۱) دلائل النبوۃ ۱/۹۹ (۲) الروض الانف: ۲/۸۴ (۳) اخبار مکہ لازرقی۲/۴۶ میں ہے کہ ہر قرعہ کے بعد واپس مکہ آتے تھے اس سے یہ اُمید رکھی جا سکتی ہے کہ منی کی طرف ہی ذبح کے لیے تشریف لے گئے تھے (۴) المواھب اللدنیہ: ۱/۶۷