حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
زمانۂ فترت میں فوت ہوگئے ، قیامت کے دن ان کا امتحان ہوگا پس وہ ایمان لے آئیں گے۔ (۲) دوسرا مسلک یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ماں باپ کا شرک کرنا ہرگز ثابت نہیں ۔ وہ اپنے جدِّ اعلیٰ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے دین پر قائم تھے۔ جس طرح اولادِ حضرتِ اسماعیل علیہ السلام میں سے کئی ایک دیگر لوگ بھی قائم تھے۔ اس مسلک کے قائل امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ ہیں اور ان کے ساتھ بہت سی جماعت علماء کی ہے۔ (۳) تیسرا مسلک یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے والدین کو خدائے تعالیٰ نے حضور ﷺ کی برکت سے زندہ کیا حتیٰ کہ وہ آپﷺ پر ایمان لائے اور پھر فوت ہوگئے۔ اس کے قائلِ بھی بڑے بڑے حُفّاظِ حدیث ہیں ، مثلاً: ابن شاہین رحمہ اللہ اور حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ اور سہیلی رحمہ اللہ اور قرطبی رحمہ اللہ اور مُحبّ طبری اور علاّمہ ناصُر الدّین ابن المنیر رحمہ اللہ و غیر ہم ۔ (۴) چوتھا مسلک وقف وسکوت ہے کہ ادب و احتیاط کے رو سے ہم اپنی زبانوں کو بند رکھیں ، کیونکہ آنحضرت ﷺ کے والدین کے حق میں خصوصاً اور دیگر کسی کے حق میں عموماً جس کی نسبت کا ہم کو علم نہیں کہ اس نے کفر یا شرک کیا، یہ کہناکہ وہ کافر ہے یا مشرک ہے ذمّہ داری کا قول ہے اور سکوت میں ذمّہ داری نہیں ہے، اس مسلک کے متعلق امام سیوطی رحمہ اللہ نے بعض صالحین کے واقعات لکھے ہیں مثلاً یہ کہ: ۱- قاضی ابوبکر ابن عربی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے والدین دوزخ میں ہیں ، تو آپ نے جواب دیا :کہ وہ شخص ملعون ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جو لوگ ایذا دیتے ہیں خد اور اس کے رسول کو ان پر لعنت کی خدا نے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘‘ ۔(۱) اور رسول اللہ ﷺ کے حق میں اس سے زیادہ کون سی ایذا ہے کہ آپ ﷺ کے والدین کودوزخی کہا جائے۔ خلیفہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے پاس ایک مُحّرر دفتر کے کام کے لیے لایا گیا جو خود تو مسلمان تھا لیکن اس کا باپ کافر تھا۔ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ بن عبد العزیز نے لانے والے شخص کو کہا کاش تو مہاجرین رحمہم اللہ کے بیٹوں میں سے کسی کو لاتا ،اس محّرر نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے والد بھی تو کافر تھے، اس پر خلیفہ کو غضب آیا اور فرمایا: تو میرے سامنے کتابت کا کام کبھی نہیں کرے گا۔ خلیفہ عمر رحمہ اللہ بن عبد العزیز نے سلیمان بن سعد سے کہا کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارا باپ فلاں فلاں مقام پر ہمارا عامل ہے اور وہ (ابھی تک) کافر ہے، اس نے جواب میں کہا کہ آنحضرت ﷺ کے والد بھی تو ایسے ہی تھے۔ اس پر خلیفہ عمر رحمہ اللہ بن عبد العزیز رحمہ اللہ سخت غضب ناک ہوئے، اور اس کو دفتر سے موقوف کردیا۔