حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
’’اسی طرح بہتر نسب کے ساتھ انبیاء اپنی قوم میں مبعوث کیے جاتے ہیں ۔ ‘‘ نبی اکرم ﷺ کی شرافتِ نسبی کوآپ نے اوپر ملاحظہ کیا کہ عرب معاشرہ میں صاحبِ نسب ہونا انتہائی اہمیّت کا حامل تھا، ابو جہل و دیگر دشمنانِ اسلام نے آپﷺ کی نبوت کا انکار کیا، آپﷺ کے حسب و نسب کا نہیں ۔ علم الانساب بھی تاریخ کی ایک قسم ہے اگر کسی کو آپ ﷺ کی عالی نسبی پر شک ہوتا تو ابولہب(سردارِ مکہ)آپﷺ کے خاندان کے ساتھ بیاہ شادی کے ذریعے نجی تعلقات استوار کرنے کی کوشش نہ کرتا۔ اسی طرح ابوجہل نے اخنس بن شریق سے خاندانِ نبوّت سے اپنے اختلافات کا ذکر کیا تو اس نے اپنی نفرتوں اور حقارتوں کے باوجود آپﷺ پر کوئی اتہام نہ باندھا۔ اگر جناب رسا لت مآب ﷺ کے خاندانی شرف میں کسی قسم کا شک اسے نظر آتا تو وہ بلاجھجک آپﷺ پر ’’خاندانی پستی‘‘ کا الزام دھر سکتا تھا اور آپﷺ سے ایسی باتیں منسوب کرسکتا تھا جو بے سروپا تھیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔کسی کے پاس کوئی ایسی شہادت موجود نہیں ہے جس سے پتہ چلے عرب و عجم کے کسی سلیم العقل انسان نے آنحضور ﷺکے خاندانی شرفِ امتیاز پر انگشت نمائی کی ہے۔ قریش جس طرح آپﷺ کی صداقت کے قائل تھے اسی طرح وہ آپﷺ کی سیادت اور متانت کے بھی معترف تھے۔ صلح حدیبیہ کے زمانے میں جب مسلمانوں اور کُفّارِ مکہّ کے درمیان جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہوچکا تھا، ان دنوں میں ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) تجارتی کاروبار کے لیے شام گئے (جو اس وقت مسلمان نہ تھے)۔ ہرقل، شاہِ روم نے ان کو اپنے دربار میں طلب کیا اور بہت سے سوالات کے علاوہ یہ بات خاص طور پر پوچھی کہ آنحضرت ﷺ کا نسب کیسا ہے؟ ابوسفیان، جو اس وقت آپ سے بدترین دشمن تھے یہ کہے بغیر نہ رہ سکے: ھُوَ فِیْنَا ذُوْحَسَبٍ(۱) ’’وہ ہمارے اندر اچھے نسب والے ہیں ‘‘ ----------------------- (۱) بخاری حدیث نمبر۴۵۵۳