حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
دائیں بائیں کرو، سالہا سال ایک ہی طرف موڑے رکھو اور آزاد چھوڑ دو تو وہ پھر اسی طرف ہی منہ کرے گی جدھر اس کا مرکز ہے۔ اس میں سوئی کا کمال نہیں قدرت نے قطب میں کشش و جاذبیت رکھی ہے۔ اسی بنا پر سوئی میں مقناطیسیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ہزاروں سال سے آدم کے صالح بیٹوں اور اس کی بیٹیوں کے دلوں کا رُخ اپنے قطب قبلۂ عالم ( بیت اللہ ) کے سوا کسی طرف نہیں ہوتا۔ اگرچہ کسی وجہ سے گردشِ ایام اسے کسی اور طرف تھوڑی دیر کے لیے متوجہ کردے، لیکن جیسے ہی روح آزاد ہوتی ہے رُخ مکہ کی طرف ہو جاتا ہے۔ اللہ نے مسلمانوں کے دلوں کو مقناطیسیت دے کر قلبِ سلیم اور قلبِ منیب میں بدل دیا ہے۔ قرآنِ حکیم میں ہے کہ (اس گھر کے بانی حضرت) ابراہیم (علیہ الصلوٰۃ والسلام) ایسے دل کے ساتھ آئے جو ایک ہی طرف کا ہو رہا، وہ کفر و شرک و غیر اللہ کی محبت کے روگ سے محفوظ تھا۔(۱) اور اس قسم کا دل اپنے مقصد میں تب ہی کامیاب ہو سکتا ہے جبکہ وہ اللہ سے ڈرے اور اس کا رُخ ایک ہی طرف ہو اس دل کو قرآنِ کریم نے قَلبِ مُنِیْبلقب سے نوازا ہے۔(۲) اب سمجھنا آسان ہو گیا کہ جس جگہ سیّد دو عالمﷺ کی پیدائش ہوئی اس طرف اقوامِ عالم کے اندر بسنے والے صالحین کے دل پہلے سے رُخ کیے ہوئے تھے۔ جیسے جیسے آپﷺ پروان چڑھتے گئے توجہ بڑھتی گئی اور قافلہ بنتا گیا۔ جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ آپﷺ کا قلبِ منور پوری عمر (ولادت سے وفات تک) اللہ کی طرف منیب (متوجہ) رہا۔ یہی عالم آپﷺ کے چہرے کا تھا، لیکن حضورﷺ رُخِ زیبا کو کبھی ظاہراً مخلوق کی جانب بھی پھیرتے، ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں اندھیر ہی اندھیر ہوتا۔ حضرت جعفر بن محمدؒ فرماتے ہیں : وَالنَّجْمِ اِذَا ھُوٰی(۳) ’’میں النجم ’’ستارہ‘‘ سیدنا محمد کریمﷺ کا دل ہے۔‘‘ (۴) جس کی برکت سے پورا عالم منور ہے پوری دنیا کے انسانوں کو قلبِ محمدﷺ سے ایمانی روشنی جاتی ہے، جب آپﷺ کی آمد ہوئی، اسی نور کی حسین روشنی تھی جو اُن کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ کو دکھائی گئی۔ ------------------------------------------- (۱) الصَّافات: ۸۴ (۲)دیکھئے سورہ ق آیت نمبر ۳۳ (۳) النجم: ۱ (۴) شفا: ۱/۳۷