حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
4 خاندانِ نبوت کے جن حضرات و خواتین پر اسلام پیش کیا گیا اور انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ نہیں ہے اور جو ظہورِ اسلام سے پہلے وفات پا گئے، ان کے نام بھی ادب کے ساتھ لکھے گئے ہیں ۔ مؤلف کا یہ خیال ہے کہ ان کے متعلق اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ جب کہ ان کی ایسی عادات کے ذکر کو کتاب میں اہمیت دی گئی ہے جن سے ان کے موحد ہونے کی دلیل بھی نکلتی ہے، لیکن( رضی اللہ عنہ ) ایک خاص اصطلاح ہے۔ وہ ان ہی کے لیے لکھا جا سکتا ہے جن کے ایمان کا کوئی ایک قول بھی ملتا ہے۔ 5 کتاب کے بعض حصوں سے محسوس ہوتا ہے کہ مصنف منظر کشی میں حد سے گزر گئے اور قوسین کا استعمال بھی نہیں کیا۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ تحقیق اور ادب دونوں کو جمع کرنے کے لیے ہم نے امانت کا دامن نہیں چھوڑا۔ کتاب میں کچھ عبارتیں ایسی نظر آئیں جو اگرچہ عربی عبارات میں نہیں ، لیکن ہمارے ترجمے میں نظر آتی ہیں تو ان کے متعلق یہ یقین کر لیں کہ وہ جملے اسی واقعے کے سیاق و سباق میں ہیں یا کسی اور کتاب میں (زیرِ بحث) واقعے کا حصہ ہیں ۔ مثلاً لکھا ہے: حضرت عبدالمطلب حضورﷺ کی تلاش میں گھوڑے پر سوار ہوئے (کتاب میں یہ نہیں ہے) کتاب میں یہ ہے کہ جب حضورﷺ مل گئے تو عبدالمطلب نے اپنے گھوڑے پہ بیٹے کو بٹھایا اور مکہ لے آئے۔ (ہم نے اس جملے کی وجہ سے قصے کی منظرکشی کے لیے لکھ دیا کہ دادا گھوڑے پہ سوار ہو کر تلاش کے لیے نکلے) (اگرچہ عربی عبارت میں ) جاتے وقت گھوڑے کا ذکر نہیں ہے۔ کتاب میں ہے کہ شہر مکہ میں واپسی پر عرب کے چند سردار بھی ساتھ تھے۔ اس وجہ سے ہم نے یہ بھی لکھ دیا کہ عبدالمطلب مکہ سے نکلے تو چند رئوساء مکہ ان کے ساتھ ہو لیے۔ ترتیبِ واقعہ میں یہ نہیں ہے کہ سب اہل مکہ نے حضورﷺ کو تلاش کیا، لیکن عبدالمطلب نے جو دعائیہ اشعار کعبہ کے طواف میں پڑھے، ان میں وہ اللہ سے التجا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے اللہ ! مکہ کے سارے لوگ پریشان ہیں (اس لیے ہم نے واقعہ کی تفہیم کے لیے لکھا کہ اہل مکہ تلاش میں نکلے) اوپر والے ممکنہ اعتراض کا جواب ہمارے اس اسلوب خاص کے بیان سے بھی مل سکتا ہے کہ بعض جگہ عربی لغت کے معانی سے استفادہ کیا گیا۔ مثلاً: حضرت آمنہ کے بعد حضرت اُمِ ایمن رضی اللہ عنہا نے حضورﷺ کی خدمت کی، وہ فرماتی ہیں : کُنْتُ اُحْضِنُ النّبِيَّ اَیْ اَقوْمُ بتربیّتِہٖ (السیرۃ الحلبیۃ ۱/۱۶۱)