حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
رُخِ انور ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوا، دادا جی کو مرحوم والد کا نعم البدل تصور کر ہی رہے تھے کہ وہ بھی ابدی نیند سو گئے۔ حزن و ملال کی پے در پے آمد و رفت نے قلبِ منور کو ان حادثات و واقعات کے لیے تیار کر دیا، جو ہم وطنوں اور رشتہ داروں سے پیش آنے والے تھے، اپنے ساتھیوں کو خون میں نہاتے بھی دیکھنا تھا اور وطنِ مالوف سے جدائی کا وہ کوہِ گراں بھی ٹوٹ پڑنے والا تھا۔ جس کے تصور سے بھی ایک دن آپﷺ کانپ اُٹھے تھے اور فرمایا تھا: اَومُخْرِ جِیَّ ھُمْ(۱) ’’کیا میری قوم مجھے یہاں سے نکال دے گی؟‘‘ سوال: کیا ضروری تھا کہ استقامت کے پیکر بننے کے لیے ان مراحل سے گزرنا پڑتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوبﷺ میں مستقل مزاجی، قوتِ برداشت اور صبر و استقامت کے جواہر بے مشقت بھی تو پیدا کر سکتے تھے؟ جواب: اللہ کی سنتِ جاریہ یہی ہے کہ وہ امتحانات کے بعد نوازتے ہیں ۔ اکثر نبیوں کو جس قسم کے حوادثات سے سابقہ رہا، آپﷺ کو بھی ان ہی کی طرح حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ اس لیے کہ آپﷺ میں سب کی خوبیاں جمع ہونی تھیں ۔ (۳) حضرت محمدﷺ کے تمام احوال اُمت کے لیے نمونہ بننے والے تھے۔ اس لیے روزِ قیامت تک کے انسانوں کے لیے آپﷺ کی ولادت اور شباب میں بھی اسوۂ حسنہ موجود ہے۔ زندگی کے مدوجزر نے سیدنا محمد کریمﷺ کو ایسے رستے پہ ڈال دیا جو ایک انسان کو لمحہ بہ لمحہ اخلاقی ترقی کی منزل تک لے جاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا: وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۲) ’’اور اے نبیﷺ! آپ بلند اخلاق پر ہیں ۔‘‘ جب آپﷺ کی جوانی باکمال طریقے سے گزری تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے گواہی دی: اِنَّکَ لَتَصِلُ الرّحْمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْم وَتُقْرِیُٔ الضَّیْفَ ------------- (۱) بخاری: ۳ (۲) سورۃ القلم: ۳