حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
لگی: ارے احمق! (تم سمجھتے نہیں ، محمدﷺ تو امام ہیں اور تم مقتدی ہو) بھلا امام مقتدی کے پیچھے کیسے کھڑا ہوتا؟ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (بڑے نکتہ سنج متبحر عالم تھے، اس قسم کے واقعات پر ان کا علم ظاہر ہوتا تھا تو بڑے بڑے صحابہ رحمہم اللہ عش عش کر اُٹھتے تھے۔ انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا اور) فرمایا: ابوجہل نے حضورﷺ کو (مکہ کی گلیوں میں تلاش کر کے) ان کے دادا کے سپرد کر دیا (حالانکہ وہ) آپﷺ کا دشمن تھا (یہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حفاظت ان کے دشمن( فرعون) کی نگرانی میں کروائی۔(۱) حضورﷺ کے ایامِ طفلی ہوں یا زمانۂ شباب، آپﷺ کو اس قسم کے معجزات ملتے رہتے تھے جو پہلے نبیوں کو پیش آئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو بچپن میں اپنی خدمت اور اپنی مرضی کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا، اسی طرح سیدنا محمد ِکریمﷺ نے بھی اپنی خدمت اور اپنے ادب پر اس اُمت کے فرعون ابوجہل کو مجبور کر دیا، علماء یہود انبیاء سابقین کے واقعات لوگوں کو سناتے رہتے تھے اس لیے حضورﷺ کے عہدِ طفولیت میں ہی اس قسم کے واقعات دکھائے گئے (جو نبیوں سے ملتے جلتے تھے) تاکہ لوگ سمجھ سکیں کہ آپﷺ غیرمعمولی شخصیت اور عند اللہ مقبول و منظور ہیں ، مذکورہ واقعہ میں جلالِ موسوی علیہ السلام کے سامنے کبرِ فرعونی کا عجز صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے حالات عام طور پر پیش آتے رہتے تھے جن کی وجہ سے آپﷺ کو دور دور تک لوگ جاننے لگے تھے۔ عبدالمطلب یمن، شام اور حبشہ جہاں بھی گئے، کسی نہ کسی نسبت سے ان کے سامنے ان کے لاڈلے پوتے کا ذکر ضرور ہوتا، حضور نبی کریمﷺ جب والدہ کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے اس کے بعد مکہ میں رہنے والا جو شخص بھی مدینہ گیا وہاں رسولِ رحمتﷺ کا تذکرہ ہوا، حضورﷺ کو جو شخص ایک بار دیکھ لیتا وہ زندگی بھر آپﷺ کو یاد رکھتا تھا۔ مکی قافلے شام جاتے تو مدینہ راستے میں ---------------------- (۱) مراح لبید: ۲/۶۴۱، الآلوسی ۱۵/ ۳۸۱، الرازی: ۳۱/ ۱۹۸، النیشابوری، ۶/۵۱۷، تفسیر غرائب القرآن: ۱۴/ ۲۶۱، السیرۃ الحلبیہ ج ۱ ص ۱۳۹