حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
عبدالمطلب: (آنے والے وفد کو دعائیں دیتے ہوئے) یہ چہرے ہمیشہ خوش رہیں (کہو کیا کہنا ہے؟ پھر ان کا خطیب کھڑا ہوا) خطیب: یا سیّدی! ہم کئی سال سے قحط اور خشک سالی کا شکار ہیں ۔ آپ کے متعلق ہمیں معلوم ہوا کہ آپ کی برکت (سے اہلِ قریش سیراب ہوئے ہیں ، ہمیں بھی اس میں سے حصہ عنایت کیجیے! اور دعا کیجیے!) عبدالمطلب: سَمْعًا وَطَاَعَتاً (سر آنکھوں پر) کل عرفات کے میدان میں جمع ہو جائو! چنانچہ صبح سویرے عبدالمطلب اپنے بیٹوں کے ساتھ نکلے اور (بصد احترام و شفقت) حضرت رسولِ اکرمﷺ کو بھی ساتھ لیا، ایک دفعہ انہوں نے حضورﷺ کو جبلِ ابو قبیس پر لے جا کر دعا کی (جس کا واقعہ آگے آتا ہے)۔(۱) آج پھر آپﷺ کی اُنگلی پکڑی اور ساتھ لے چلے، عرفات وہاں سے بارہ تیرہ کلومیٹر ہے، ممکن ہے یہ حضرات اونٹوں پہ سوار ہوئے ہوں ،مکہ سے قریش والے پہنچے اور ادھر قبیلہ قیس اور مضر اپنے بوڑھوں جوانوں اور بچوں کو لے کر وہاں پہنچے (حضرت عبدالمطلب اسّی سال سے اوپر عمر کو پہنچے ہوئے تھے اس لیے) اُن کے لیے ایک کرسی میدانِ عرفات میں بچھائی گئی، وہ اس پر بیٹھے اور گود میں حضرت محمدﷺ کو بٹھایا۔ (جب سب آ گئے تو) حضرت عبدالمطلب کھڑے ہوئے اور دعا شروع کی (ان کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے): ’’اے اللہ ! چمکنے والی بجلی کے پروردگار! کڑکنے والی گرج کے مالک، اے پالنے والے پالنے والوں کے! اے مشکلات کو آسان کرنے والے! یہ (میدانِ عرفات میں حاضر) قبیلہ قیس اور مضر کے لوگ ہیں ، یہ بہت اچھے ہیں ، (اب بارش نہ ہونے اور قحط سالی کی وجہ سے) ان کے دماغ پراگندہ ہو گئے، کمریں جھک گئیں ، یہ آپ سے اپنی بے چارگی اور لاچاری کی فریاد کرتے ہیں اور جان و مال کی بربادی کی شکایت کرتے ہیں ۔ اے اللہ ! ان کے لیے خوب برسنے والے بادل بھیج دے اور آسمان سے ان کے لیے ----------------------- (۱) دلائل النبوۃ للبیھقی:۲/۱۸