حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
عبدالمطلب: (گھبرا کر) حلیمہ رضی اللہ عنہا ! اس وقت، تم اور محمدﷺ کہاں ؟ حلیمہ رضی اللہ عنہا : میں پیارے محمدﷺ کو لے کر آ رہی تھی،جب میں اس مقدس شہر کے بالائی علاقے (مُعلاّ) میں پہنچی تو وہ گم ہو گئے، اب اللہ کی قسم ہے، میں نہیں جانتی کہ وہ کہاں ہیں ؟ عبدالمطلب یہ سن کر فوراً کعبہ کی طرف گئے، حجرِ اسود کو بوسہ دیا اور طواف شروع کر دیا اور اللہ سے دعا و مناجات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مکہ میں یہ خبر آناً فاناً پھیل گئی، سب اپنے اپنے گھروں سے نکلے اور محمدﷺ کی تلاش کے لیے شہر کے چاروں اطراف میں پھیل گئے، ان کے محبوب سردار اللہ وحدہ لاشریک لہ‘ سے التجائیں کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے: اے اللہ ! میرے بیٹے حضرت محمدﷺ کو واپس بھیج دے اور اسے(قوی و توانا اور جوان کرکے نیکی کے کاموں میں ) میرا دست و بازو بنا دے۔ میرے پروردگار! میرا بیٹا نہیں مل رہا،(جس کی وجہ سے) اس شہر ذی وقار کا ہر باسی پریشان حال اور میرے لختِ جگر کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ زمانہ(کہیں ) میرے بیٹے کو(یہاں سے) دور نہ لے جائے(اے اللہ !) اس کا نام محمدﷺ (پہلی کتابوں میں ) آپ ہی نے تو رکھا ہے۔ (وہ دعائیں کر رہے تھے، لوگ حضورﷺ کو تلاش کر رہے تھے۔ اماں آمنہ رضی اللہ عنہا و حلیمہ رضی اللہ عنہا گھر میں بیٹھیں دُعائوں میں مشغول تھیں ) کہ غیب سے ایک آواز آئی، جس کو سب نے سنا، کہنے والا کہہ رہا تھا: لوگو سنو! پریشان مت ہو! محمدﷺ کا پالنہار موجود ہے، وہ نہ اس کو رُسوا کرے گا اور نہ ضائع ہونے دے گا۔ (یہ آواز سن کر دادا جی ہاتفِ غیبی سے مخاطب ہوئے) عبدالمطلب: ان کو ہمارے پاس کون پہنچائے گا؟ غیبی آواز: وہ تہامہ کی وادی میں ’’ شجرِ یمنٰی ‘‘کے قریب تشریف فرماہیں ۔