حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
اُمیہ بن عبدالشمس، عبد اللہ بن جدعان، اسد بن عبدالعزیٰ، وہب بن عبد مناف اور قصی بن عبدالدار کو ساتھ لیا اور حبشہ پہنچ گئے، دربار میں بادشاہ سے ملاقات ہوئی، حضرت عبدالمطلب نے وفد کی نمائندگی کرتے ہوئے مبارک بادی کا ایک خطبہ اس کے سامنے پیش کیا اور اسے آگاہ کیا ’’ہم(قافلۂ عرب) بیت اللہ کے خادم اور اس کے پڑوسی ہیں ‘‘ بادشاہ: آپ کون ہیں اے کلام کرنے والے؟ عبدالمطلب: میرا نام عبدالمطلب ہے اور میرے والد کا نام ہاشم۔ (بادشاہ حضرت ہاشم کو جانتا تھا، حضرت ہاشم بھی اپنی قوم اور بیت اللہ کے سفیر کے طور پر بادشاہ سے میل ملاقات رکھتے تھے۔ اس لیے وہ نبی علیہ السلام کے حسب، نسب سے واقف تھا۔ اس کا اپنا نسب حضورﷺ کے آباء سے ملتا تھا۔) بادشاہ: اچھا تو آپ میری بہن کے بیٹے(میرے رشتہ دار بھی) ہیں ۔ عبدالمطلب: جی ہاں (آپ درست سمجھے ہیں )۔ بادشاہ: خوش آمدید! یہ گھر آپ کا گھر ہے۔ اس تفصیلی ملاقات، ملکی حالات اور گُفت و شنید کے بعد اہلِ حرم کا یہ وفد ایک ماہ تک شاہی مہمان کے طور پر وہاں مقیم رہا۔ ایک دن شاہِ حبشہ نے ملاقات کا خصوصی اہتمام کیا۔ اس نے صرف حضورﷺ کے دادا جی کو اس وقت بلایا، جب اسکے خلوت کدے میں کوئی تیسرا شخص نہ تھا۔ اس نے اپنی قریب ترین نشست پرحضرت عبدالمطلب کو بڑی عزت و وقار سے بٹھایا اور عرض کرنے لگا: ’’دیکھو میں تمہیں ایک راز سے آگاہ کرنے لگا ہوں ۔ مجھے امید ہے تم اس وقت تک اسے محفوظ رکھو گے، جب تک اللہ تعالیٰ خود اس راز کو دنیا کے سامنے علی الاعلان ظاہر نہ کر دے، تمہارے لیے یہ بڑی اچھی خبر ہے۔‘‘ عبدالمطلب: آپ بے فکر رہیے، اللہ آپ کا ملک سلامت رکھے اور عرب آپ کے پاس جماعت درجماعت حاضر ہوتے رہیں ۔ بادشاہ: شاہی خزانے کے خاص الخاص رازوں اور اس کی چھپی ہوئی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ تہامہ (سرزمینِ حجاز) میں عنقریب ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے، اس کے کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت ہوگی اور اس کی سرداری روزِ قیامت تک رہے گی۔ شاید وہ بچہ پیدا ہو چکا ہے ہماری کتابوں میں جس زمانے کی علامات بتائی گئی ہیں وہ وقت آ ہی چکا ہے۔