حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
حضرت شیماء رضی اللہ عنہا کی ان لوریوں میں سادگی اور اپنائیت کے ساتھ درسِ توحید نمایاں ہے۔ ان کو یہ شرف ملا کہ ان کی گود سردار دو جہاں (ﷺ)کی آرام گاہ بن کر اللہ کے اس فرمان کا ایک حصہ بنی جس میں اس نے اپنے محبوبﷺ کو ان کا بچپن یاد دلایا۔ اَلْمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی (۱) ’’کیا اس ( اللہ ) نے تجھے یتیم نہیں پایا، پھر تجھے ٹھکانہ دیا‘‘ اللہ نے آپﷺ کی بہتر پرورش کے لیے جن خواتین کے دلوں میں محبتیں ڈالیں ان میں حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا ، ان کی رضاعی بیٹی شیماء رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ اسد کے نام آتے ہیں ، اس قسم کا شرف جسے مل جائے کہ کوئی یتیم اس کی گود میں پروان چڑھے۔ اسے ’’مَاٰوٰی الْیَتِیْمِ‘‘ (یتیم کی جائے پناہ) لقب سے یاد رکھا جاتا ہے۔ حضورﷺ کی زندگی کے یہ خوبصورت ایام پہاڑوں میں گھری اس وادی میں ایک تاریخ رقم کر رہے تھے، اس بستی کے رہنے والے بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں اور مرد حضورﷺ کو دیکھتے تو ان کی بھوک مٹ جاتی، حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کا یہ گھر بقعۂ ُنور تھا، جہاں فرشتوں کی آمد کا سلسلہ بعید نہ تھا۔ حضرت شیما رضی اللہ عنہا نے جو لوریاں دیں ان کے خلوص کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور اللہ نے ان کی دعائیں قبول کر کے ثمرات ان کی زندگی میں دکھا دیے۔ حضرت شیماء رضی اللہ عنہا جب آپﷺ کا جھولا جھلاتیں یا گود میں لیے پھرتیں تو جو لوری دیا کرتی تھیں ، اس کے جملوں پہ غور کریں اور جب وہ حضور ﷺ کی عمر کے اکسٹھویں سال میں حضوﷺر کے سامنے اسیر ہو کر جعرانہ تک پہنچیں پھر حضورﷺ نے ان کو آزاد کیا، قدموں میں چادر بچھائی، انعام سے نوازا اور وہ عزت دی جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی، تو انھوں نے دیکھا کہ ان کی لوری قبول ہوئی اور ان کے ان دعائیہ جملوں کی عملی تصویر نظر آئی جو انہوں نے ننھے محمدﷺ کے لیے کہے تھے: ان کی تمنا تھی کہ محمد اس وقت تک زندہ رہیں کہ شیما رضی اللہ عنہا پیارے ----------------------------- (۱) سورۃ الضحیٰ:۶